جب دولتِ اسلامیہ ( داعش ) کے ہاتھوں دو امریکی اور ایک برطانوی صحافی کا سر قلم ہوا ،تب جا کے مغرب پر منکشف ہوا کہ داعش کیسی مہیب بلا ہے، چنانچہ داعش کے خلاف ایک وسیع تر محاذ کی تشکیل کے لئے مشرقِ وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں لینا ،پکڑنا ،دوڑنا کا شور مچ گیا اور اس دنیا کے میر صاحب نے انہی عطاری لونڈوں کا اتحاد کھڑا کردیا جن کے سبب مشرقِ وسطیٰ آج تک بیمار ہے ۔ اگر اس اتحاد میں کوئی نہیں تو شام اور ایران نہیں۔ مگر کویت اور قطر وغیرہ ہیں کہ جن پر داعش کو مالیاتی پیروں پر کھڑا کرنے کا الزام ہے ۔کاش آپ کو بہت پہلے کوئی سمجھا دیتا کہ ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
آپ نے صدام حسین کو پالا۔جب تک وہ کارندہ رہا تب تک آنکھ کا تارہ رہا۔جیسے ہی آپ کی کھینچی لکیر سے باہر قدم رکھا آپ نے ختم کردیا۔یہ جانے بغیر کہ صدام کے بعد کا عراق کیا ہوگا ، یہ جانے بغیر کہ بعث پارٹی کا سیکولر ، قوم پرست ، سوشلسٹ درخت اگر جڑ سے اکھاڑ دیا گیا تو اس کی جڑوں تلے دبے کون کون سے حشرات باہر نکل پڑیں گے اور پھر ان سے کیسے بچا جائے گا۔
کیا آپ وہی تو نہیں جنہوں نے 2003ء میں یہ نعرہ لگا کے چڑھائی کی تھی کہ ہم ایسا متحد عراق دیکھنا چاہتے ہیں جس میں سب خوف و آمریت سے پاک فضا میں انصاف ، آزادی اور جمہوریت کے پرچم تلے مساویانہ جیئیں۔پر ہوا کیا ؟ جس طرح صدام حسین نے عراق میں شیعوں اور کردوں کو دبا کر سنی اور خاندانی آمریت قائم کی ،اسی طرح آپ نے صدام حسین کا ڈھانچہ مسمار کرکے عراق پر شیعہ آمریت قائم کروا دی اور سنیوں کو اسی سیاسی و سماجی محرومی کے غار تک پہنچا دیا جہاں شیعوں کو صدام حسین نے رکھا تھا۔ساتھ ہی ساتھ آپ نے کردوں کی بھی حوصلہ افزائی کی کہ وہ مملکتِ عراق کا علامتی حصہ رہتے ہوئے عملاً ایک آزاد مملکت کے مزے لوٹیں۔آپ عراق کو کتنا سمجھے اور اس کی کتنی فکر ہے ؟ ثبوت میں نائب صدر جو بائیڈن کا دو ڈھائی برس پہلے کا یہ بیان کیا کافی نہیں کہ عراق تین حصوں میں بھی بٹ جائے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہو جائے گا ؟
آپ کی اس سوچ کا نتیجہ کیا نکلا ؟ یہی ناں کہ جو قبضہ فروغِ جمہوریت و مساوات کے نام پر کیا گیا، اسے آپ کے ہوتے ہوئے فرقہ وارانہ جھاڑ جھنکاڑ نے ڈھانپ لیااور آپ ہی کے خلیجی دوستوں نے عین آپ کی ناک کے نیچے فرقہ واریت کے الاؤ کو اور بڑھانے کے لئے نفرتی تیل کے بیرل پکڑا رضاکار بھیجنے شروع کردیے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور وہ سنی قبائل جنہوں نے آپ کے وعدۂ دلبری پر یقین کرتے ہوئے القاعدہ کو صوبہ الانبار سمیت اپنے علاقوں سے پسپائی پر مجبور کردیا تھا ،ان کی محرومیاں اتنی بڑھ گئیں کہ انہیں دوبارہ القاعدہ کے ہاتھ پر بیعت کرنی پڑ گئی۔
بالکل یہی کام شام میں آپ اور آپ کے دوستوں نے کیا۔کیا یہ وہی شام نہیں جہاں نائن الیون کے بعد سی آئی اے القاعدہ قیدی بھیجتی رہی تاکہ اذیت ناک شامی خفیہ ان سے معلومات اگلوائیں ۔ کیا یہ وہی بشار الاسد نہیں جن کے ابا حافظ الاسد 1990ء کی جنگ کویت میں صدام کے خلاف آپ کے وفادار اتحادیوں میں سے تھے ۔ شام کی علوی حکومت تب بھی اتنی ہی خونخوار تھی جتنی آج ہے ۔ اس حکومت نے جب 1982ء میں حلب اور حما کے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اخوان المسلمون کے ہزاروں سنی ہمدردوں کو قتل کردیا تب تو آپ یا آپ کے خلیجی دوست بالکل نہیں تڑپے ۔مگر یہ بھی خوب ہے کہ جب شام میں اقلیتی علوی حکومت کے ہاتھوں ہزاروں غیر علوی شہری مارے جائیں تو غیرتِ عالم جوش میں آجائے اور جب مصر کے ایک سنی جرنیل کے حکم پر ہزاروں اخوانی سنی مارے جائیں تو سلاطینِ عالی اہلِ قتال کے لئے خزانہ کھول دیں۔
ہوا کیا ؟ یہی ناں کہ نتائج و عواقب پر غور کئے بغیر شام کی جابرانہ حکومت کو جڑ سے اکھاڑنے کے جوش نے بعینہ وہی رنگ دکھایا جو صدام کو اکھاڑنے کے جوش میں ہوش کھونے نے دکھایا ۔ شامی ریاستی ڈھانچہ درہم برہم ہونے سے وہ سب کنکھجورے زمین سے نکل آئے جنہیں بعثی آمریت کے برگد نے اب تک آپ ہی کی مرضی سے دبا رکھا تھا۔امریکہ کو جب تک یہ راز پہنچا کہ ظالم بشار الاسد حکومت کے خاتمے کی مغربی و خلیجی و ترک کوشش کو القاعدہ نے ہائی جیک کر لیا ہے تب تک تکفیری اونٹ کھیت چر چکا تھا۔اس اندھا دھندی کے نتیجے میں نہ صرف مشرق و مغرب کے خلافت نواز سرفروش ترکی کے راستے شام میں داخل ہوتے چلے گئے بلکہ خلیجی و مغربی پیسے سے بھیجا جانے والا اسلحہ بھی القاعدہ کے النصرہ فرنٹ اور پھر اس کی کوکھ سے جنم لینے والی ابوبکر البغدادی کی دولتِ اسلامیہ فی العراق و سوریہ ( داعش ) کے ہاتھ لگ گیا۔اور پھر داعش نے اپنے زیرِ قبضہ علاقوں میں وہ وہ کارنامے دکھانے شروع کئے کہ ان کے آگے القاعدہ بھی اعتدال پسند معلوم پڑتی ہے ۔
وہ جو کہتے ہیں کہ ناکامی لاوارث ہوتی ہے مگر کامیابی کے باپ سب بن جاتے ہیں۔امریکہ اور ہمنوا کبھی تسلیم نہیں کریں گے کہ افغانستان و عراق کے بعد شام کی شکل میں انہوں نے تیسری دفعہ خود اپنے ساتھ ہی ہاتھ کرلیا ۔ ان ذہین دماغوں نے افغان تجربے سے کچھ نہ سیکھنے کے سبب شام و عراق میں پہلے سے بھی زیادہ معیاری انٹرنیشنل تکفیری یونیورسٹی کھلوا دی جس کا کیمپس عراق سے شام تک لاکھوں ایکڑ پر ہے ۔اس میں داخلے کے لئے سب سے زیادہ درخواستیں یورپ سے آرہی ہیں۔ جب اس یونیورسٹی کے گریجویٹس کچھ ہی عرصے بعد واپس ہوں گے اور اپنی اپنی معاشرتی لیبارٹریوں میں عملی تجربے شروع کریں گے تو ان سب پنک پینتھر مدبروں کو لگ پتہ جائے گا جو زمینی حقائق سمجھ کر نہیں بلکہ انہیں فرض کرکے دوسروں کی قسمتوں کے فیصلے کرنے کے عادی ہیں۔
اب گیم مغرب بمقابلہ جہادیوں کے دائرے سے نکل کر القاعدہ بمقابلہ داعش ہے ۔زیادہ سے زیادہ ذہنی خام مال پر قبضے کے لئے دونوں میں مارکیٹنگ کی جنگ چھڑ گئی ہے ۔اگر ابو بکر البغدادی دنیا بھر کے مایوس اور پُرجوش جوانوں کو اپنے خلافتی شو روم کی طرف راغب کررہے ہیں تو القاعدہ نئے نئے خطوں میں اپنی شاخیں قائم کرنے کے اعلانات کررہی ہے ،مگر دونوں مطمئن ہیں کہ جن سورماؤں سے انہیں کوئی بقائی خطرہ ہوسکتا ہے وہ خود بھان متی کا کنبہ ہیں جو یہاں وہاں بمباری کرسکتے ہیں ، رقم بھیج سکتے ہیں مگر بے لچک تکفیری نظریے کے رد میں کوئی پرکشش متفق الیہ جدید جوابی اسلامی نظریہ نئی نسل کے سامنے رکھنے سے معذور ہیں۔ جب تک ایسا جوابی نظریہ سامنے آئے تب تک شائد شام رات میں بدل چکی ہو۔
ماؤزے تنگ نے کہا تھا تم لوگوں کے ذہن مسلح کردو ، ہتھیار وہ خود اٹھا لیں گے ...اس نظریے کو چینیوں کے بعد کوئی سمجھا تو القاعدہ اور داعش وغیرہ نے سمجھا۔لال بھجکڑ حکمرانوں کے لئے سوائے اس کے کیا کہیں کہ پھنسی کے بروقت علاج کے لئے جیب سے دس رپلی بھی نہ نکالیو۔جب یہی پھنسی سرطان ہوجائے تو کروڑوں لٹا دیجو۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجئے )