بلاول بھٹو کی معافی کے بعد

جواں سال بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے پارٹی کے ناراض کارکنوں کو لکھے خط میں ماضی کی غلطیوں پر معافی ایک طویل سیاسی اننگز کا اچھا آغاز ہے ۔بلاول نے چونکہ یہ خط رضاکارانہ خوش نیتی سے لکھا ہے لہذا اسی خوش نیتی کے جذبے کے ساتھ بلاول سے یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ معافی کن غلطیوں پر اور کن کی غلطیوں پر ؟ اور جن نامعلوم افراد نے نامعلوم غلطیاں کیں ،ان کے لئے پارٹی کو قومی سے صوبائی سطح تک پہنچانے کی جزا و سزا کیا ہے یا ہوگی اور ان کی جگہ کن لوگوں سے پر کی جائے گی؟ میں یہ سوالات یوں اٹھا رہا ہوں کیونکہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے چھیالیس برس کے دوران میں ایک خواب کی تعبیر کا پیچھا کرنے کے سفر میں جتنی قربانیاں دیں ،ویسی مسلسل قربانیاں پاکستان کی کسی قومی جماعت نے نہیں دیں بلکہ قیادت نے بھی کسی عام جیالے کارکن کی طرح قید و بند اور سزائے موت کو گلے لگایا۔
بلا شبہ یہ کریڈٹ بھی پیپلز پارٹی کو جاتا ہے کہ اس نے طبقاتی سیاست کے نظریے کو دانشورانہ مباحثوں سے نکال کے سڑک پر رکھ دیا اور بائیں بازو کی بکھری قوتوں کو ایک موثر اجتماعی پلیٹ فارم مہیا کیا۔سیاست کے مخصوص سازشی کلب کی دیواریں مفلوک الحالوں کو پھندوا دیں اور بوجھل آنکھوں میں وہ خواب جگائے جن کے سبب قیامِ پاکستان کے بعد عام آدمی کو پہلی بار یقین ہوا کہ وہ بھی کسی گنتی شمار میں ہے ۔اس پارٹی سے ایک پورا الیکشن چرا لیا گیا ( انیس سو نوے ) ۔مگر اسی پارٹی نے ہی پہلی بار پانچ برس کی آئینی مدت مکمل کرکے اقتدار دوسری پارٹی کے حوالے کیا اور اس دوران اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری میں بھی اضافہ کیا۔ایسے ماضی کی حامل جماعت کے ساتھ وہ کیا سانحات ، بدعنوانیاں اور بے اعتدالیاں پیش آئیں کہ آج اس کے سربراہ کو اپنے ہی ناراض کارکنوں سے معافی مانگنی پڑ رہی ہے ۔چلئے بلاول بھٹو کی آسانی کے لئے میں کچھ نکات مرتب کرنے کی کوشش کرتا ہوں:
کیا معافی میں متحدہ پاکستان میں پرامن انتقالِ اقتدار نہ ہونے میں پیپلز پارٹی کی بانی قیادت کا غیر سیاسی و جذباتی رویہ اور سن ستر کے معروضی حالات کا غلط تجزیہ بھی شامل ہے ؟کیا اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی کی بانی قیادت کی جانب سے مسترد وڈیروں اور بیورو کریٹس کے لئے دروازے کھولنے اور پارٹی پر اقتدار کے دروازے کھلوانے والے کارکنوں کو پیچھے دھکیلنا بھی معافی کا حصہ ہے ؟کیا اس معافی میں سن ستر کے عشرے میں وقتی سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لئے مسترد شدہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے آگے آئینی و سیاسی طور پر جھکنا بھی شامل ہے کہ جس کے نتیجے میں رجعت پسندی کے اونٹ نے جناح ؒکے پاکستانی خیمے میں یوں گردن ڈال دی کہ آج پورا خیمہ ہی اونٹ کے کوہان سے لٹکا ہے ۔کیا پہلے دور میں پارٹی منحرفین اور سیاسی مخالفین کو قید و بند و اذیت و تذلیل اور منہ زور اخبارات کو لگام دینے کے لئے ڈیکلریشن ، کاغذ کے کوٹے اور اشتہارات کو معطل و منسوخ کرنے اور مقدموں کے جال میں پھانسنے کی پالیسی بھی شامل ہے ؟
کیا بلوچستان اور سرحد میں قوم پرست حکومتوں کی برطرفی ، ان کے رہنماؤں پر غداری کے مقدمات اور انیس سو تہتر تا اسی بلوچستان آپریشن بھی اس معافی میں شامل ہے ۔اور بلوچستان میں ماضی کی غلطیوں پر آپ کے والد نے بھی معافی مانگی تھی اس معافی کا بلوچوں کو ذرہ برابر فائدہ نہ ہونا بھی اس معافی کا حصہ ہے ؟ کیا جنرل ضیا کی جیلوں ، شاہی قلعوں ، کوڑوں ، پھانسیوں اور برطرفیوں کے شکار جیالوں کے اہلِ خانہ جن مسائل سے دوچار ہوئے اور بہت سوں کے لواحقین تو اب تک دوچار ہیں۔ اس بابت معافی بھی معافی میں شامل ہے ؟کیا 1988ء سے 2013ء تک کے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کا معیار اور ضیا و پرویز آمریت کا کھل کے ساتھ دینے والوں کو نوازنے کی حکمتِ عملی اور اس کے نتیجے میں کارکنوں کی
مسلسل بددلی بھی اس معافی کا حصہ ہے ؟کیا پرویز مشرف سے کیا گیا این آر او بھی بطور غلطی تسلیم کیا جائے گا؟کیا پورے پانچ برس اقتدار میں رہنے کے باوجود بی بی کے قاتلوں کو بے نقاب نہ کرنے اور بھٹو کیس ری اوپن کرنے میں ناکامی بھی اس معافی کا حصہ ہے ؟ کیا صوبہِ سندھ کو چہیتوں میں بطورسیاسی انعام تقسیم کرنے کی مسلسل پالیسی ، ایک ریموٹ کنٹرول وزیرِ اعلیٰ کی ایجاد اور صوبے کی حکومت کو صحیح معنوں میں عوامی فلاح و بہبود کا نمونہ بنانے کے بجائے کاغذی منصوبوں اور وقتی سیاسی فوائد کی حامل سکیموں پر اربوں روپے لٹا دینے کا عمل بھی معافی کا حصہ ہے ؟ کیا پیپلز پارٹی کے ماضی کے گڑھ پنجاب کی پارٹی قیادت کو ایسے بندوں کے حوالے کردینا جنہیں دیوار پر لکھا تو کیا دیوار ہی نظر نہیں آتی،یہ دریا دلی بھی معافی میں شامل ہے ؟ کیا پارٹی میں آج تک اوپر سے نیچے انتخابات کا عمل مکمل نہ ہوسکنا بھی اسی معافی میں شامل ہے ؟
اچھا معافی تو مانگ لی مگر اب ؟ آیا چیلوں کے گھیرے میں ہی رہنا ہے یا جیالوں کی بات اس طرح سننی ہے جیسا کہ سننے کا حق ہے ؟ 
خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی ایک جمہوری پارٹی ہے اور اندرونی انحراف کا خیر مقدم کرتی ہے ۔اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر کارکنوں کو یہ بتانا کیوں ضروری سمجھا گیا۔اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر کارکن ناراض کیوں ہوتے ہیں اور پارٹی چھوڑ کے گھر کیوں بیٹھ جاتے ہیں یا دوسری جماعتوں میں کیوں چلے جاتے ہیں ؟خط میں کیا گیا یہ تجزیہ درست ہے کہ پاکستان میں اس وقت جو سیاسی میدان سجا ہوا ہے اس میں مقابلہ دائیں بازو کے ہی درمیان ہے اور بایاں بازو منظر سے غائب ہے ۔تو پھر بائیں بازو کو کیسے فعال کیا جائے تاکہ پاکستانی سیاست کے دونوں پلڑے متوازن ہوسکیں؟ سب سے مشکل کام یہ ہے کہ موجودہ پیپلز پارٹی سب سے پہلے بذاتِ خود دائیں بازو اور سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی سوچ سے نجات حاصل کرے ۔گو کام مشکل ہے مگر عمر ، توانائی اور وقت بلاول بھٹو کی طاقت ہے ۔سندھ فیسٹیول منانا ، سیلابی پانی میں فوٹو سیشن کے لئے اترنا ، ٹویٹر کا مسلسل استعمال ، زوردار بیانات بھی ضروری ہیں مگر آپ کے نانا ، نانی اور والدہ نے صرف یہی نہیں کیا ۔ انہوں نے صرف ماضی کو یاد نہیں کیا بلکہ اپنا بھی بہت کچھ اس ملک اور عوام کو دیا ۔آپ کو جو چیلنج درپیش ہے وہ بہت بڑا ہے ۔نئی پارٹی کھڑی کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا گری ہوئی پارٹی کو کھڑا کرنا۔ معافی مانگ لی اچھا کیا۔بلکہ بہت ہی اچھا کیا ۔کیونکہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں سگنل توڑنے والا بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا ایک بڑی پارٹی کے سربراہ کا اپنے کارکنوں سے معافی مانگنا بڑی بات ہے ۔مگر یہ تو بتائیے کہ اس سے آگے کیا کریں گے ؟
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.comپر کلک کیجئے )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں