مختلف عقائد اور رسوماتِ قربانی

اللہ میاں کہہ لیں ، خدا یا خداوند کہہ لیں ، دیوتا کہہ لیں ، آسمانی قوتیں کہہ لیں جو بھی کہہ لیں مگر ہر عقیدہ رکھنے والے انسان نے ہزاروں برس سے اپنے خدا کی خوشنودی و رضا کے حصول کو مقدم جانا ہے ۔دنیا کے بیشتر بڑے بڑے مذاہب بھلے اپنی طرزِ عبادت و عقائد میں ایک دوسرے سے کتنے بھی مختلف ہوں لیکن چند عناصر ان تمام مذاہب میں مشترک ہیں جیسے متبرک مقامات کی زیارت و عبادت ، تلقینِ اخلاقیات ، چڑھاوا یا خیرات اور قربانی ۔ الہامی ادیان کی آمد سے پہلے اور کسی حد تک بعد میں بھی کچھ عقیدوں میں دیوی ، دیوتاؤں کی خوشنودی کے لئے انسان کی بلی چڑھائی جاتی تھی۔لیکن شریعتِ ابراہیمی اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے تین بڑے مذاہب نے قربانی کی نوعیت بدل دی۔
مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی جانب سے آزمائے جانے کے عمل کے دوران اپنے صاحبزادے کو قربان کرنے کا جو فیصلہ کیا اس کا تذکرہ تینوں الہامی کتابوں میں تفصیلاً موجود ہے ۔ فرق ہے تو یہ کہ یہودی و عیسائی عقائد کے مطابق حضرت ابراہیمؑ اپنے صاحبزادے حضرت اسحاقؑ کو قربان کرنا چاہتے تھے؛ جبکہ مسلمان عقائد کے مطابق حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا تو رحمتِ خداوندی نے عین وقت پر جوش مارا اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا اور قبولیتِ قربانی کی علامت کے طور پر فرزندِ ابراہیمؑ کی جگہ ایک مینڈھا بھیج دیا گیا۔اس واقعے کی تفصیلات سورت الصافات میں بیان ہیں۔ اس سورہ میں فرزند کا تذکرہ تو ہے مگر کون سا فرزند ؟ یہ وضاحت نہیں۔ 
بہرحال نام و تفسیر و تشریح سے قطع نظر یہودیوں نے ہیکل سلیمانی کی تباہی تک اس واقعے کی یاد تازہ کرنے کے لئے بھیڑ اور بیل کی قربانی جاری رکھی ۔اس رسم کو کربان کہا جاتا تھا ۔لیکن ایرانیوں کے ہاتھوں ہیکل کی تباہی کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور اب یہودی عقائد کے مطابق قربانی کا سلسلہ تب بحال ہوگا جب قیامت کے نزدیک ایک نجات دہندہ آئے گا اور ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرے گا۔البتہ یومِ کپور کی دوپہر بعض یہودی گناہوں کے کفارے کے طور پر مرغ کی قربانی کرتے ہیں یا عبادت گاہ کی قربان گاہ پر اناج ، وائن یا اگر بتی کا چڑھاوا دیتے ہیں اور خیرات کرتے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں میں سنتِ ابراہیمی کے اتباع میں حلال جانوروں کی قربانی کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔
جہاں تک عیسائیت کا تعلق ہے تو اکثریت کا عقیدہ یہ ہے کہ چونکہ حضرت عیسیٰ ؑنے صلیب پر چڑھ کے اپنے پیروکاروں کے گناہوں کا کفارہ دے دیا‘ لہٰذا الگ سے قربانی کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔البتہ آرمینین چرچ کے پیروکاروں میں ایک مخصوص دن پر رسمِ کربانیہ ادا کی جاتی ہے ۔اس موقع پر بھیڑ یا مرغ قربان کیا جاتا ہے ۔مگر کیتھولک عیسائی علما کہتے ہیں کہ آرمینین چرچ کی اس روایت کے ڈانڈے دینِ عیسوی کے بجائے اس دور سے جا ملتے ہیں، جب یونانی اور رومی دیوتاؤں کی خوشنودی کے لئے جانور قربان کئے جاتے تھے ۔آرمینین چرچ کے پیروکاروں کے علاوہ میکسیکو کے فوک کیتھولک چرچ کے پیروکار بھی قدیم رواجات کے اتباع میں جانور قربان کرتے ہیں۔جبکہ گھانا کے تالنیسی قبیلے میں بھی دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے پالتو جانوروں اور پرندوں کی سالانہ قربانی دی جاتی ہے ۔مشرقِ بعید میں تاؤ مذہب کے بہت سے پیروکار مرغی و بکری وغیرہ کی قربانی کرتے ہیں۔
ہندو مت میں اگرچہ اہمسا ( رحمِ دلی ) کا تصور بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔مگر ویدوں میں گھوڑے کی قربانی کا تذکرہ ملتا ہے۔ البتہ یہ قربانی صرف شاہی خاندان ہی کرسکتا تھا۔بعد ازاں یہ رسم بھی متروک ہوگئی اور اس کی جگہ مخصوص دنوں میں گھوڑے کی پوجا نے لے لی۔ اب ریاست مدھیہ پردیش میں چترا کوٹ کے مندر میں گھوڑے کی قربانی کی رسم کی یاد میں ایک گھوڑا بنایا جاتا ہے اور پھر عبادت و نذرانے پیش کئے جاتے ہیں۔
ہندوستان میں بدھ مت کے فروغ تک برہمن طبقے میں شکتی کی دیوی کالی کی خوشنودی کے لئے بیل ، بچھیا ، بکرے اور مینڈھے قربان کئے جاتے تھے مگر بدھ مت نے اسے ایک ظالمانہ رسم قرار دیتے ہوئے اپنے پیروکاروں کے لئے اسے ممنوع قرار دے دیا۔تاہم کالی ماتا سے شکتی مانگنے کے تعلق سے اڑیسہ ، مغربی بنگال ، آسام اور جنوبی ریاست تامل ناڈو کے مخصوص مندروں میں آج بھی جانوروں کی قربانی ہوتی ہے اور ان کا خون دیوی کے چرنوں پر چھڑکا جاتا ہے ۔
مگر کالی کو خوش کرنے اور خود کو بلاؤں سے محفوظ رکھنے کے لئے جانوروں کی قربانی کا سب سے بڑا میلہ ہر پانچ سال بعد موسم ِ سرما میں نیپال کے وسطی شہر بریا پور کے گادھی مائی مندر میں ہوتا ہے جس میں شمالی بھارت سے آئے ہوئے عقیدت مندوں سمیت لگ بھگ پچاس لاکھ افراد پانچ لاکھ سے زائد جانوروں کی جھٹکا قربانی کرتے ہیں۔ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس میلے میں پہلی قربانی گادھی مائی کے پروہت کے ہاتھوں ہوتی ہے جو سفید چوہے کے دل میں تیر پیوست کرکے میلے کا آغاز کرتا ہے ۔ اس کے بعد کبوتر ، بطخ ، مرغ ، خنزیر ، بھیڑوں بکریوں کی گردنیں بڑی سی کٹار کے ایک ہی وار میں علیحدہ کرنے کی رسم شروع ہوجاتی ہے۔ سب سے زیادہ تعداد میں بھینسیں اور بچھڑے قربان کئے جاتے ہیں ۔کئی پجاری کٹی گردنوں سے ابلتا ہوا گرم گرم خون منہ میں بھر کے کالی کے چرنوں میں بکھیر دیتے ہیں۔چونکہ یہ قربانی کرنے والے اپنے عقیدے کے اعتبار سے خود گوشت نہیں کھا سکتے اس لئے جانوروں کا گوشت مختلف کمپنیوں کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ جانوروں کے حقوق کی علمبردار بہت سی تنظیمیں اور کارکن گادھی مندر کے میلے کے خلاف احتجاجی ریلیاں بھی نکالتے ہیں مگر کوئی بھی حکومت ایسے معاملات میں مداخلت سے کتراتی ہے جس کا تعلق عقیدے سے ہو؛ تاوقتیکہ اس عقیدے کے ماننے والوں کے علما کی اکثریت بدلے ہوئے حالات کے تناظر میں رسومات اور ان کے پیچھے پوشیدہ پیغام کی روح کی تازہ تشریح یا اجتہاد پر متفق نہ ہو۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لئے bbcurdu.comپر کلک کیجئے )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں