ایران‘ سعودیہ معاہدے سے وابستہ امیدیں …( 2)
تحریر: فرناز فصیحی
ایران اور مصر کے دوطرفہ سفارتی تعلقات کو اس وقت شدید گزند پہنچی تھی جب 1979ء میں ایران کے روحانی رہنما آیت اللہ خمینی کی سربراہی میں آنے والے انقلاب کے بعد مصر نے شہنشاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کو اپنے ہاں پناہ دے دی تھی۔
اِسی ماہ ایرانی پارلیمنٹ کے ایک وفد نے بحرین کا دورہ کیا جس کا مقصد وہاں ایک پارلیمانی اجلاس میں شرکت کرنا تھا۔ ایران کے نیوز میڈیا نے رپورٹ دی کہ وہاں قیام کے دوران سفارتی تعلقات قائم کرنے کے موضوع پر بیک چینل مذاکرات ہوئے تھے۔ بحرین کا ایران میں سفارت خانہ موجود نہیں ہے۔ جمعرات کے روز ایک ایرانی وفد متحدہ عرب امارات بھی پہنچا‘ اس وفد کی قیادت ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی کر رہے ہیں۔ علی شمخانی وہی ہیں جنہوں نے چین میں سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے دوران ایران کی طرف سے مذاکرات کیے تھے۔ اس وفد میں ایران کے خزانہ اور دفاع کے اعلیٰ حکام کے علاوہ ایران کے مرکزی بینک کے گورنر بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ علی شمخانی نسلاً عرب ہیں اور عربی زبان روانی سے بولتے ہیں۔ عرب ممالک کے ساتھ سفارت کاری جیسے اہم کام کے لیے ان کے انتخاب سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ایران کے خطے میں کم محاذ آرائی والے موقف کی طرف تبدیلی کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی توثیق بھی حاصل ہے جو ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کی بھی سربراہی کرتے ہیں۔ایران عرب میل ملاپ کا ایک بڑا مقصد خطے میں اسرائیل کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ پر چیک رکھنا بھی ہو سکتا ہے جس کا نقطۂ عروج 2020ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تعاون سے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے تاریخی معاہدے ہونا تھا جنہیں ابراہم معاہدے کہا جاتا ہے۔ ایرانی سرحدوں کے اس قدر قریب اسرائیل کی بڑھتی ہوئی موجودگی نے ایرانی حکام کو چوکنا کر دیا کیونکہ ایران کی حساس تنصیبات اور سائٹس کے علاوہ اسرائیل اہم ایرانی شخصیات پر حملوں میں بھی ملوث رہا ہے چنانچہ ایران کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل نے اس پر خفیہ حملے کرنے یا انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کے لیے خطے کو لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کیا تو وہ اس پر اپنا شدید ردعمل دے گا۔
دوسری طرف اسرائیل اپنے طور پر ایران اور اس کے ایٹمی پروگرام کو عرصے سے اپنے وجود کیلئے ایک سنگین خطرہ سمجھتا ہے جبکہ سعودی عرب کو اپنے ایک اہم پارٹنر کے طور پر دیکھتا ہے۔ مسٹر علی شمخانی کا کہنا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونیوالے حالیہ معاہدے سے خلیج فارس کے علاقے میں اسرائیل کے مذموم مقاصد کا قلع قمع کرنے میں مدد ملے گی مگر مسٹر علی شمخانی کی قیادت میں یو اے ای میں آنیوالے بھاری ایرانی وفد کے مقاصد صرف اسرائیل کی پیش بندی تک ہی محدود نہیںبلکہ یہ وفد متحدہ عرب امارات کے ساتھ مذاکرات کے دوران دوطرفہ تجارت اور مالیاتی چینلز پر بھی بھرپور فوکس رکھے گا۔ ایران کے سرکاری نیوز میڈیا نے جمعہ کے روز یہ رپورٹ کیا ہے کہ اس کے بعد مسٹر علی شمخانی ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے عراق کا دورہ بھی کریں گے۔
اس حالیہ پیش رفت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ متحدہ عرب امارات ایران کے لیے ایک اہم مالیاتی مرکز کی حیثیت بھی رکھتا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یو اے ای کی ایک بڑی آبادی ایران کے تارکین وطن پر مشتمل ہے اور وہ یہاں کی تجارت میں بنیادی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں قائم بڑی بڑی بزنس انٹر پرائزز کے مالک بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایران پر جو معاشی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں‘ وہ عرصے تک ان سے بچنے کے لیے متحدہ عرب امارات کو استعمال کرتا رہا ہے مگرجب سے یو اے ای کے اہم اتحادی سعودی عرب کے ساتھ ایران کے تعلقات میں تعطل آیا ہے اور دوسری طرف امریکا کی طرف سے آنیوالے شدید دبائو کے بعد‘ اس نے ان مالیاتی چینلز کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔
موجودہ حالات میں دو طرفہ کشیدگی کم کرنے کے فیصلے کے پس پردہ ایران کی ایک اہم ترجیح یہ بھی تھی کہ وہ فوری طور پر سعودی عرب کی ملکیت یا اس سے وابستہ نیوز میڈیا کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ دو ایرانی شخصیات جو کسی نہ کسی حوالے سے ان مذاکرت سے منسلک ہیں‘ کے مطابق اس وقت میڈیا کے حوالے سے ہونے والے مذاکرت میں مرکزی حیثیت ’’ایران انٹر نیشنل‘‘ کو حاصل ہے جو سعودی عرب کی ملکیت ہے اور واشنگٹن میں قائم ہے اور فارسی زبان میں خبریں ٹیلی کاسٹ کرنے والا چینل ہے۔ تاہم سعودی عرب کی حکومت کا موقف ہے کہ ’’ایران انٹر نیشنل‘‘ ایک پرائیویٹ نیوز چینل ہے جس کے مالکان نجی سرمایہ کار ہیں اور سعودی حکومت کا اس چینل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
بیشتر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جہاں تک سعودی عرب کے ساتھ ہونے والی مصالحت کی پیش رفت پر ایرانی حکومت کے تاثر کا تعلق ہے تو وہ اسے اپنی ایک بڑی سفارتی فتح سمجھتی ہے کیونکہ یہ اس کی حکمت عملی کا بنیادی حصہ ہے کہ وہ داخلی اور خارجی محاذوں پر جاری کشیدگی اور محاذ آرائی میں کمی لانا چاہتی ہے۔ مڈل ایسٹ‘ نارتھ افریقا‘ چیٹہم ہائوس کا پروگرام ہے۔ یہ ایک ریسرچ گروپ ہے جس کا ہیڈکوارٹر لندن میںکام کرتا ہے۔ اس گروپ کی ڈپٹی ڈائریکٹر صنم وکیل کہتی ہیںکہ ’’یہ علاقائی سطح پر ایران کی ایک تاریخی کامیابی ہے اور اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دبائو بڑھانے کی حکمت عملی ناکام ہو گئی ہے‘‘۔ صنم وکیل کا اشارہ درحقیقت سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس مہم کی طرف تھا جو انہوں نے ایران کے خلا ف شروع کر رکھی تھی۔خطے کے ممالک کے پاس ایک آپشن تو یہ تھا کہ وہ اس بات کا انتظار کرتے کہ کب امریکا اور اس کے مغربی اتحادی ممالک ایران کو سزا دیتے ہیں اور اسے اپنے مطالبات کے آگے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کرتے ہیں مگر صنم وکیل کے خیال میں عرب ممالک نے اب مزید انتظار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور ایران کیساتھ اپنے معاملات کو براہِ راست طے کرنے کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان کے خیال میں عرب ممالک نے سوچا ہے کہ مسلسل بے یقینی کی فضا اور میزائل حملوں کے خوف میں رہنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ تہران کیساتھ براہِ راست مذاکرات شروع کیے جائیں اور خطے میں امن برقرار رکھنے کیلئے اسے ترغیبات دی جائیں۔
بشکریہ: نیویارک ٹائمز‘ انتخاب: دنیا ریسرچ سیل‘ مترجم: زاہد رامے
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)