ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

صدر پوتن اور نئی روسی تاریخ …(1)

تحریر: میخائل زائیگر

اس مہینے سے روس کے تمام ہائی سکول طلبہ کو نئی روسی تاریخ پڑھائی جائے گی۔ تاریخ کی نئی کتابوں میں طالب علم گزشتہ 80 برسوںکی آسان ترین تاریخ پڑھیں گے جو دوسری عالمی جنگ سے شروع ہو کر زمانہ حال سے متعلق ہو گی۔ اس تاریخ پر صرف کریملن کی چھاپ ہو گی۔ اس پر نظر ثانی کا اطلاق نہیں ہو گا۔ گزشتہ تیس برس میں روس کی نصابی کتابوں میں جو کچھ دکھایا گیا ہے اس کے بالکل برعکس نئی تاریخ میں جوزف سٹالن کو ایک ذہین اور بااثر لیڈر کے طور پر پیش کیا گیا ہے جن کی رہنمائی میں سوویت یونین نے جنگ جیتی تھی اور عام آدمی نے پہلے سے کہیں بہتر زندگی گزارنا شروع کی۔ اس تاریخ میں ظلم اور جبر کا بھی ذکر ملتا ہے مگر ایک الزامی انداز میں۔ اسے پڑھ کر قاری میں یہی احساس پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ سٹالن کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے تھے‘ وہ حقیقت میں مجرم تھے اور انہیں جو سزائیں بھگتنا پڑیں وہ بجا طور پر اس کے مستحق تھے۔ سوویت یونین کے انجام کو بھی کافی حد تک مسخ کر کے بتایا گیا ہے۔ تاریخ کی سابقہ کتابوں میں سوویت سسٹم کے انجام، منصوبہ بندی پر مبنی معیشت کی نااہلی، اسلحے کی دوڑ اور ضعیف سوویت لیڈروں کی نامعقولیت کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ نئی تاریخ میں ہر بات کا ملبہ میخائل گورباچوف کے سر پر تھوپ دیا گیا ہے۔ انہیں ایک نااہل بیورو کریٹ قرار دیا گیا جو امریکی دبائو کا مقابلہ نہ کر سکا۔

پھر اس میں اٹھائیس صفحات میں یوکرین کی جنگ کی تفصیلات درج ہیں۔ بلاشبہ اس میں تاریخ نام کی کوئی شے نہیں محض پروپیگنڈا ہے جو روسی ٹیلی وژن پر بار بار نشر ہونے والے گھسے پٹے نعروں اور جملوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ کتاب ولادیمیر میڈنسکی اور ان کے بعض رفقا کی لکھی ہوئی ہے جو روس کے سابق وزیر ثقافت رہ چکے ہیں اور اب صدر کے مشیر خاص ہیں۔ مسٹر میڈنسکی کا ایک اور بھی خاص کردار ہے۔ وہ صدر پوتن کے گھوسٹ رائٹر بھی ہیں۔ وہ اپنے کئی اسسٹنٹس کی ٹیم کے ہمراہ صدر پوتن کے نام سے تاریخ کی کتابیں لکھتے ہیں۔ صدر پوتن کے تاریخ کے ساتھ جنون اور اسے اپنی حکومت کے لیے جواز فراہم کرنے کو دیکھیں تو مسٹر میڈنسکی کو آج کے روس میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ماضی کے اَن دیکھے جھروکوں سے انہوں نے ایک ایسی تاریخی اور نظریاتی عمارت استوار کرنے میں مدد کی ہے جس پر صدر پوتن کا اقتدار قائم ہے۔

مگر وہ ہیںکون؟ مسٹر میڈنسکی 1970ء میں یوکرین کے چیرکاسی ریجن میں پیدا ہوئے تھے۔ مگر وہ یوکرینی ہرگز نہیں ہیں۔ ان کے والد فوج میں تھے، یوں ان کا سارا بچپن ایک چھائونی سے دوسری چھائونی پورا سوویت یونین گھومتے گزرا ہے۔ ان کے ایک قریبی جاننے والے کے مطابق‘ ایسے ماحول میں مسٹر میڈنسکی کی پرورش بہت ہی قدامت پسند اقدار میں ہوئی ہے اور وہ سوویت یونین کے ساتھ بہت خلوص سے وابستہ ہیں۔ تعلیم بھی ان کے لیے اتنی ہی اہم تھی۔ میڈنسکی کی والدہ ایک سکول ٹیچر تھیں اور انہوں نے عین وقت پر انہیں ماسکو سکول آف انٹرنیشنل ریلیشنز میں بھیج دیا۔ ایک ماڈل سٹوڈنٹ کے طور پر انہوں نے سکول آف جرنلزم میں بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور وہ جلد کمیونسٹ پارٹی کی یوتھ آرگنائزیشن ’’کومسومول‘‘ کے رکن بن گئے۔ مگر جب انہوں نے گریجویشن مکمل کی تو عین اسی وقت سوویت یونین بھی ٹوٹ گیا تھا۔ مسٹر میڈنسکی کو نئے ماحول میں ڈھالنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ 1992ء میں انہوں نے اپنے بعض کلاس فیلوز کے ساتھ مل کر ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی ’’یا کارپوریشن‘‘ قائم کر لی۔ ان کے زیادہ تر گاہک مالیاتی فرمیں اور تمباکو کمپنیاں تھیں۔ وہ جلد ہی تمباکو لابی کے پی آر مین بن گئے۔ یوں 1994ء میں وہ کرسٹوفر بکلے کی کی کتاب ’’تھینک یو فار سموکنگ‘‘ کے اہم ترین کردار جیسے بن گئے۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی تعلیم کو نظر انداز نہیں کیا اور اپنی ڈاکٹریٹ کی سٹڈی جاری رکھی۔

یہی دور تھا جب میری مسٹر میڈنسکی سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں 1990ء کی دہائی میں اسی انسٹیٹیوٹ میں انڈر گریجویٹ تھا۔ وہ مجھ سے دس سال بڑے تھے اور انہوں نے پبلک ریلیشنز پڑھانا شروع کیا تھا۔ یہ ایک نیا اور بہت ہی فیشن ایبل ڈسپلن تھا۔ میرے کئی ساتھی جو پی آر مین بننا چاہتے تھے‘ وہ ان سے پڑھنے کا خواب دیکھتے تھے۔ مسٹر میڈنسکی کو کیمپس میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل تھا جہاں انہیں ایک کامیاب بزنس مین سمجھا جاتا تھا اور انہیں تمام طلبہ کی سپورٹ حاصل تھی۔ ہر طالب علم ان کی کمپنی میں انٹرن شپ کرنے کا خواہشمند ہوتا تھا۔

2000ء میں ولادیمیر پوتن روس کے صدر بن گئے اور انہوں نے بورس یلتسن سے عنان اقتدار سنبھال لی۔ کسی بھی پی آر مین کی طرح مسٹر میڈنسکی نے بھی خود کو نئے ماحول کے مطابق ڈھال لیا اور اپنی سول سروس کو اپنے پولیٹکل کیریئر میںتبدیل کر دیا۔ 2004ء میں وہ صدر پوتن کی یونائیٹڈ رشین پارٹی کی طرف سے پارلیمنٹ کے رکن بن گئے تھے۔ ان الزامات کے باوجود کہ انہوں نے ایک رکن پارلیمنٹ ہونے کے باوجود تمباکو کمپنیوں اور کسینوز کے لیے لابنگ جاری رکھی تھی، مسٹر میڈنسکی کا ستارہ مائل بہ عروج ہی رہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے حب الوطنی کا چورن کافی بیچا۔ 2007ء میں تمباکو کمپنیوں کی لابنگ کرنے والے نے تاریخ کے بارے میں کتابیں لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا، یا یوں کہہ لیںکہ انہوں نے تاریخی پی آر تخلیق کرنا شروع کر دی تھی جس کانام ’’مِتھس ابائوٹ رشیا‘‘ تھا۔ انہوں نے روس کے بارے میں پھیلائے گئے نام نہاد جھوٹ بے نقاب کرنا شروع کر دیے۔ روسیوں کے بارے میں جھوٹ، ان کی سستی اور ظلم پر مبنی کئی کئی والیم موجود تھے۔ یہ روسی چوریوں، جذبے اور صبر، روسی جمہوریت، غلاظت اور قید کی کہانیاں تھیں۔ ان تمام کتابوںکے بارے میں مسٹر میڈنسکی کا استدلال یہ تھا کہ روس کی تاریخ میں جو کچھ بھی غلط بیانی کی گئی ہے وہ ہمارے دشمنوں کی طرف سے دشنام طرازی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آئیون دی ٹیریبل واقعی کوئی احمق ڈکٹیٹر نہیں تھا کیونکہ وہ صرف ایک بات یعنی اپنے عوام کے مفاد میں کچھ بھی کرنے کے لیے تیار رہتا تھا اور روس کے مفاد کے لیے جو کچھ بھی ممکن تھا اس نے کیا۔ دوسری بات یہ کہ اس وقت کے تمام مغربی حکمران ظالم ضرور تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بارے میں جتنے بھی مظالم بیان کیے جاتے ہیں وہ سب کچھ متعصب سوچ رکھنے والے یورپی مورخین کا کیا دھرا ہے۔

یہ امر پیش نظر رہے کہ مسٹر میڈنسکی نے تاریخ نویسی کا جو سلسلہ شروع کیا تھا حقیقی مورخین نے ابتدا سے ہی اسے تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ مگر انہوں نے کبھی یہ بات نہیں چھپائی کہ انہوں نے جتنی بھی تاریخ لکھی ہے وہ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ دراصل تاریخی حقائق ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ان کی تاریخ نویسی کا اصل ہدف اپنا پسندیدہ اور دوسروں کو قائل کرنے والا بیانیہ تخلیق کرنا ہے۔ مسٹر میڈنسکی نے اپنی ایک کتاب میں کہیں لکھا ہے کہ ’’ان کے لیے حقائق کبھی کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ہر بات ہمیشہ حقائق سے شروع نہیں ہوتی بلکہ اس کی تفصیلات سے شروع ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے مادرِ وطن، اپنے عوام کے ساتھ محبت کرتے ہیں تو آپ جو بھی سٹوری لکھتے ہیں وہ مثبت ہی سمجھی جائے گی‘‘۔ (جاری)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں