صدر پوتن اور نئی روسی تاریخ …(2)
تحریر: میخائل زائیگر
مسٹر میڈنسکی نے اس اپروچ کے علمبردار ہونے کے ناتے اپنے ذہن میں روس کے بارے میں ایک طاقتور اور رفاعی ریاست کا تصور اخذ کر لیا تھا جو بجا طور پر کمزور اور کم طاقتور سمجھے جانے والے ممالک پر ہمیشہ حاوی رہتی ہے۔ ان کا یہ تصورِ ریاست جب صدر پوتن کی نظروں میں آ گیا تو وہ انہیں بھی بہت پسند آ گیا؛ چنانچہ صدر پوتن نے 2012ء میں مسٹر میڈنسکی کو اپنی کابینہ میں روس کے وزیر ثقافت کے منصب پر فائز کر دیا۔ کریملن کے انتہائی قریب سمجھے جانے ذرائع کے خیال میں انہیں صدر ولادیمیر پوتن نے ایک بڑا واضح ٹاسک سونپا تھا اور وہ یہ تھا کہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے‘ وہ روسی سماج کو عسکریت پسندی کے قالب میں ڈھال دیں اور انہوں نے بالکل وہی کام کیا جو صدر پوتن کی طرف سے ان کے ذمے لگایا گیا تھا۔
رشین ملٹری ہسٹوریکل سوسائٹی‘ جو اس سے قبل ایک خیراتی تنظیم سمجھی جاتی تھی‘ اب اس نے مسٹر میڈنسکی کی سربراہی میں اپنے ایونٹس اور اپنی نمائشوں میں روس کی ماضی میں لڑی گئی جنگوں میں حاصل فتوحات اور قومی عظمت اور شان و شو کت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ روس کے وزیر ثقافت کی حیثیت سے مسٹر میڈنسکی نے سرکاری فنڈنگ کا رخ بڑے پیمانے پر ایسی موویز بنانے کی طرف موڑ دیا جن میں دوسری عالمی جنگ کے دوران حب الوطنی پر مبنی پیغامات دیے گئے۔ اس دور کی معروف موویز میں ’’Maria. Save Moscow اور Panfilov's 28 Men‘‘ شامل ہیں۔ محض آرٹ کو ناپسند کیا جاتا تھا۔ ایک اجلاس میں مسٹر میڈنسکی نے کہا تھا کہ جو کچھ پیغام ایک بلاک بسٹر مووی دے سکتی ہے‘ میں نہیں سمجھتا کہ آرٹ بذاتِ خود میرے لیے اتنا پُرکشش ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی وزارت کے دور میں جو بھی کلچرل پالیسی متعارف کرائی تھی اسے صرف جنگ اور تشدد پر مبنی پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیںکہا جا سکتا۔
یہ بہت ہی کامیاب قسم کے سال تھے؛ تاہم جونہی 2020ء کے سال کا آغاز ہوا تو صدر پوتن نے اپنی حکومت کے اجزائے ترکیبی بالکل ہی تبدیل کر دیے جس میں ان کی انتظامیہ کے تمام ارکان کو اپنے عہدوںسے ہٹا دیا گیا۔ مسٹر میڈنسکی کو بھی ان کے وزیر ثقافت کے منصب سے فارغ کر دیا گیا اور بعد میں انہیں صدر پوتن کے اسسٹنٹ کے طور پر فرائض انجام دینے کے لیے کہہ دیا گیا۔ ان کے قریبی حلقوںکی رائے میں یہ ان کے عہدے میں بہت بڑی تنزلی قرار دی جا سکتی ہے۔ یہ تنزلی ان کے لیے کافی اشتعال انگیز تھی۔ (وہ اس بات پر بھی سخت رنجیدہ تھے کہ نئے منصب کے لیے انہیں کوئی نئی کار بھی نہ دی گئی جو عام طور پر صدارتی انتظامیہ میں شامل حکام کا استحقاق سمجھی جاتی ہے)۔
لیکن ان کی قسمت نے ان کی یاوری اس طرح کی کہ چند ہفتے بعد ہی کووڈ 19 کی وبا پھوٹ پڑی اور یوں انہیں ایک مرتبہ پھر اپنے سابقہ سٹیٹس پر بحال ہونے کا موقع مل گیا۔ 2020ء کے موسمِ گرما کے دوران صدر ولادیمیر پوتن ولڈائی میں اپنی رہائش گاہ پر خود ساختہ ایامِ تنہائی گزار رہے تھے۔ انہیں ہمیشہ سے تاریخ میں دلچسپی رہی ہے اور یہاںان کے پاس وافر وقت دستیاب تھا اور وہ اس دوران جنون کی حد تک تاریخ میں دلچسپی لینا شروع ہو گئے۔ اب انہوں نے تاریخ کے موضوعات پر بات چیت کرنا شروع کر دی مگر اس کے لیے انہیں کسی اسسٹنٹ کی خدمات کی ضرورت تھی جو ان کے تاریخ سے متعلق نظریات کی نوک پلک سنوار کر انہیںاحاطہ تحریر میں لا سکے۔ بلاشبہ اس کام کے لیے ان کا مسٹر میڈنسکی سے زیادہ معاون اور مددگار کون ہو سکتا تھا اور انہوں نے خود کو ایک بہترین چوائس ثابت بھی کیا۔
یہ بات درست ہے کہ مسٹر میڈنسکی خالصتاً اپنا ہی مسودہ نہیں لکھتے تھے۔ صدر پوتن کے گھوسٹ رائٹر کے پاس گھوسٹ رائٹرز کی اپنی ایک لمبی چوڑی ٹیم موجود تھی۔ وہ ابھی تک رشین ملٹری ہسٹوریکل سوسائٹی کی سربراہی کر رہے ہیں جس کے ملازمین ان کے لکھے ہوئے تاریخی مضامین اور کتابوں پر کام کر رہے ہیں۔ عام طور پر کام کا طریقہ کار کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ صدر ولادی میر پوتن اپنے تھیسز مسٹر میڈنسکی کو لکھوا دیتے ہیں جو ان میں مزید اضافہ کرنے کے بعد آگے اپنے اسسٹنٹ کو ڈکٹیٹ کروا دیتے ہیں۔ پھر وہ انہیں مضامین کی صورت میں لکھ دیتے ہیں اور اس کے بعد مسودہ واپس مسٹر میڈنسکی کی طرف چلا جاتا ہے اور ان سے ہوتا ہوا دوبارہ صدر پوتن کے پاس پہنچ جاتا ہے جو اس کی فائنل ایڈیٹنگ کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر 2021ء میں صدر پوتن کا مشہور آرٹیکل بھی اسی انداز میں لکھا گیا تھا جس میں انہوں نے پہلی مرتبہ یہ کہا تھا کہ مغربی ممالک ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یوکرین کو روس کے مخالف کھڑا کر رہے ہیں۔ یہ مضمون بہت جارحانہ دعووں سے بھرا ہوا تھا یعنی روسی اور یوکرینی عوام ایک ہی ہیں، نیز یہ کہ یوکرین ایک بالشیویک تخلیق تھا۔ یہ کہ روسی سلطنت یا سوویت یونین کبھی بھی یوکرینی عوا م کے حقوق کے مخالف نہیں رہے۔ یہ آرٹیکل صدر پوتن کی سرکاری ویب سائٹ پر شائع ہوا تھا جسے بعد میں وزارتِ دفاع کے ذریعے تمام ملٹری یونٹس کو بھیج دیا گیا تھا اور صدر پوتن آج بھی اپنی تمام سرکاری تقاریر میں باقاعدگی کے ساتھ اپنے اسی مرکزی نکتے کو دہراتے رہتے ہیں۔ صدر پوتن کا یہ پورا آرٹیکل روس کے ہائی سکول طالبعلموں کو پڑھائی جانے والی تاریخ کی نصابی کتابوں میں بھی شامل کیا گیا ہے۔
یہ نصابی کتاب جو روسی طلبہ کی ایک پوری نسل کی سوچ کو تبدیل کرنے کی قوت رکھتی ہے، شاید مسٹر میڈنسکی کا اب تک کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جائے گا۔ ان کے قریب ترین رفقا کی رائے میں مسٹر میڈنسکی اپنے آپ کو روسی سلطنت کے قدامت پسند دانشور کانسٹنٹائن پوبیڈو نوسٹیسف کے ہم پلہ سمجھتے ہیں جو نکولس دوم کے عہد کا بدنام زمانہ نظریہ ساز گردانا جاتا ہے۔ اس نوعیت کے دوسرے ماڈلز میں آندرے ژنڈونوف تھے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد جوزف سٹالن کا رائٹ ہینڈ مین سمجھا جاتا تھا یا میخائل سسلوف کی طرح جو بریزنیف کا چیف آئیڈیلاگ تھا جو حکومت کے سیاسی مخالفین پر سخت ظلم و جبر کا بڑا حامی سمجھا جاتا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسٹر میڈنسکی کو متذکرہ بالا شخصیات کی ایک پیروڈی کہا جا سکتا ہے، جس طرح ان کی لکھی ہوئی تاریخ روس کی حقیقی تاریخ کی ایک پیروڈی ہے۔ یہ ایک ایسا عریاںجھوٹ ہے جو عملی طور پر وجود تو رکھتا ہے مگر لوگوں کے لیے اس پر یقین کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ صرف یہی ایک بات روسی تاریخ کے پورے استبدادی بیانیے کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اپنی تمام تر کامیابیوں کے باوجود مسٹر میڈنسکی آج بھی روس کے استبدادی نظریے کو دفنانے کے لیے ایک گورکن قرار دیے جا سکتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی رخصتی کے بعد کسی بھی ذی شعور انسان کے لیے ممکن نہیں ہو گا کہ وہ روس کے ماضی کے بارے میں شرمندگی، خوف اور منافرت کے بغیر کوئی بات بھی کر سکے۔ (ختم)
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)