قتل کا الزام اور امریکی پریشانیاں… (2)
تحریر: پیٹر بیکر
جون میںکینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں سکھ کمیونٹی لیڈر ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد کینیڈا میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے الزام لگایا ہے کہ ’’بھارتی حکومت کے ایجنٹوں نے یہ قتل کیا ہے‘‘ اور انہوںنے یہ کہتے ہوئے ایک بھارتی سفارت کار کو ملک بدرکردیا ہے کہ وہ کینیڈا میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ تھا۔ بھارت نے جسٹن ٹروڈوکے الزامات کی تردید کی ہے اور جواب میں اس نے بھی ایک کینیڈین سفارت کار کو ملک بدرکردیا ہے۔ بائیڈن حکومت نے ابھی تک کوئی عملی اقدام نہیںکیا تاہم اپنی گہری تشویش کا اظہار ضرور کیا ہے جبکہ وہ کینیڈین حکومت کی طرف سے شروع کی گئی تحقیقات کے نتائج کا انتظارکر رہی ہے۔
ماضی میں جب کسی اتحادی ملک کی سرزمین پر کسی دشمن ملک نے اپنے کسی سیاسی مخالف کو قتل کرایا تو امریکا اپنے اتحادی ملک کے احتجاج میں شامل ہوتا رہا ہے۔ 2018ء میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کرتے ہوئے 60روسی سفارت کاروںکو امریکا سے نکل جانے کا حکم دے دیا تھا جنہوںنے یہ پختہ رائے قائم کر لی تھی کہ روس کے ایجنٹوں نے ایک سابق روسی انٹیلی جنس افسر سرگئی وی سکریپل اور ان کی بیٹی کو‘ جو برطانیہ میں رہائش پذیر تھے‘ ایک اعصابی گیس استعمال کرتے ہوئے قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مشیروں کے خلاف سخت ناراضی کا اظہار کیا تھا کہ انہوں نے ان کے اس فیصلے کے حوالے سے بات افشا کیوںکی۔ روس کے برعکس بھارت ہر وقت اپنی جمہوریت کا راگ الاپنے میں مصروف رہتا ہے جہاں پارلیمنٹ اور میڈیا میں متنوع قسم کے موضوعات پر بحث مباحثہ ہوتا رہتا ہے لیکن جب سے نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے ہیں تو حالیہ برسوں میںاظہارِ رائے کی آزادی کی گنجائش سکڑ کررہ گئی ہے۔ یہاںتک کہ جس طرح امریکی صدر جو بائیڈن نے جون میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے اعزاز میں وائٹ ہائوس میں ایک سرکاری ڈنر کا اہتمام کیا تھا‘ بھارت کا نیوز میڈیا شدید دبائو کا شکار ہو گیا ہے۔ حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والی کئی سیاسی شخصیات کو قانونی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑگیا ہے اور بھارت میں ہندوتوا کی بالادستی کے قائل ہندو شدت پسندوں نے جس طرح مساجد پر حملے شروع کر رکھے ہیں اور مذہبی اقلیتوںکو جس طرح خوف وہراس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ ان ہندو قوم پرستوںکوکسی قسم کی قانونی سزا کا ڈر خوف نہیںہے۔ چند روز قبل بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں جو جی20 کے رکن ممالک کا سربراہی اجلاس ہوا ہے‘ اس دوران نریندرمودی کی حکومت نے نئی دلی کی سڑکوں اور چوراہوںکو ایسے پوسٹرز اور بل بورڈز سے سجا رکھا تھا جو ان کی اس سوچ اور فکر کی عکاسی کرتے تھے کہ ان کی حکومت ایک مطلق العنان ریاست میں شخصیت پرستی کے نظریے پر یقین رکھنے والے عناصر کو چیلنج کرے گی۔ امریکا نے جس طرح کے دفاعی معاہدے جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ کر رکھے ہیں‘ ان سے ملتا جلتا دفاعی معاہدہ کرنے کے لیے امریکا اس وقت سعودی عرب کے ساتھ بھی مذاکرات کررہا ہے جس سے اس امر کا اندازہ ہو رہا ہے کہ امریکا سعودی عرب کی حکومت کے ساتھ کس نوعیت کے وسیع تر تعلقات استوار کرنے کی کوششیںکر رہا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ کسی طرح اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان بھی ایسے ہی تعلقات قائم کرانے کے لیے کوئی معاہدہ کروا دیں جبکہ سعودی عرب کے ولی عہد پرنس محمد بن سلمان یہ چاہتے ہیں کہ ایسا کوئی نیا بندوبست کرنے سے قبل امریکا سعودی عرب کے ساتھ سکیورٹی سے متعلق پکے اور دیر پا وعدے اور یقین دہانیاں کرائے۔
بدھ کے روز سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے یہ کہا ہے کہ تعلقات کو نارمل کرنے کی طرف پیش رفت ہو رہی ہے۔ انہوںنے فاکس نیوز کو بتایا کہ ’’ہر آنے والے دن ہم ایک دوسرے کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں‘‘۔ صدر بائیڈن اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے درمیان ملاقات میں بھی اہم موضوع یہی ایشو تھا جنہوںنے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تاریخی امن معاہدے کی پیش گوئی کی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کے صدر جو بائیڈن کے موجودہ دعوے ان کی 2020ء کی انتخابی مہم کے دوران کی گئی تقاریر کے بالکل برعکس ہیں جن میں انہوں نے جمال خشوگی کے قتل کے بعد سعودی عرب کے خلاف سخت اقدامات کرنے کی بات کی تھی۔ صدر بائیڈن بھارت کی طرح ویت نام کے ساتھ بھی دو طرفہ تعلقات مضبوط کرنے کے خواہش مند ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کی موجودہ پیش رفت کی اہم وجہ روس اور چین ہیں۔ جوبائیڈن نہ صرف اسرائیل اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کے درمیان نسل در نسل جاری رہنے والی کشیدگی ختم کرانا چاہتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ تیل پیدا کرنے والی سعودی بادشاہت امریکی مدار کے اندر رہتے ہوئے ایک موثر کردار ادا کرے۔
نیو جرسی سے ایوانِ نمائندگان کے ایک ڈیموکریٹک رکن ٹام ملی واسکی نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن ماضی میں جمہوریت بمقابلہ آمریت کے ویژن کے حوالے سے جس طرح کی قابلِ تعریف حقیقت پسندی اور صراحت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں‘ اب اس کے برعکس وہ ایک ایسے ملک کے ساتھ سکیورٹی کا ایک مستقل معاہدہ کرنا چاہتے ہیں جہاں تمام اختیارات ایک خاندان کے ہاتھ میں ہیں۔ اس پیش رفت میں مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ سعودی عرب کو سکیورٹی کے حوالے سے ایسی قانونی یقین دہانی کرانا چاہتا ہے جیسی اس نے ابھی تک یوکرین کو بھی نہیںکرائی اور اس کا باعثِ تشویش پہلو یہ ہے کہ ایسا کرنے سے امریکا کا سابقہ مؤقف اپنی اخلاقی اتھارٹی سے محروم ہو جائے گا۔صدر بائیڈن اور ان کے مشیر یہ چاہتے ہیں کہ وہ ان ممالک کے حوالے سے بھی اپنے جمہوریت اور انسانی حقوق سے متعلق وعدے پر قائم رہیں جن کے ساتھ مل کر وہ کام کرنا چاہتے ہیں۔ انہوںنے ہنوئی میں قیام کے دوران رپورٹرز کو بتایا کہ ’’میری جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی ہے میں نے اس کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے‘‘۔
بشکریہ: نیو یارک‘ ٹائمز انتخاب: دنیا ریسرچ سیل‘ مترجم: زاہد رامے
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)