غزہ: بچوں کا قبرستان …(2)
تحریر: راجہ عبدالرحیم
غزہ کے الشفا ہسپتال کے ڈاکٹر غسان نے بتایا کہ بہت سے بچوں کو یہاں اکیلے لایا گیا اور وہ شدید صدمے کی حالت میں تھے۔ ان کے جسم جلے ہوئے تھے، گولیوں سے زخمی تھے یا ملبے تلے دب کر زخموں سے چور تھے۔ کئی ایسے بچے بھی تھے جن کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا جب تک ان کی شناخت نہ ہو ہم انہیں ’نامعلوم ٹراما بچے‘ کہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے تمام اہل خانہ مارے جا چکے ہیں اس لیے انہیں کوئی لینے کے لیے نہیں آتا۔ اب تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ یہ جنگ صرف بچوں کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔ اس مہینے کے شروع میں پندرہ سو سے زائد بچوں کو ’نامعلوم ٹراما بچوں‘ کے نام پر رجسٹرڈ کیا گیا۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل نے الشفا ہسپتال کو یہ کہہ کر بمباری کا نشانہ بنایا کہ اس کے نیچے حماس کا کمانڈ سنٹر قائم ہے حالانکہ یہاں غزہ کے لوگوں کی اکثریت پناہ لیے ہوئے تھی۔ اقوام متحدہ کے حکام نے بھی پیشگی وارننگ جاری کی تھی کہ ان حملوں کی وجہ سے غزہ کو شدید خطرہ ہے۔ عالمی ماہرین‘ جو غزہ کے محکمۂ صحت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں‘ نے بتایا کہ ہسپتالوں اور مردہ خانوں میں ان لوگوں کی آئی ڈی نمبروں کے ساتھ رجسٹریشن کی جا رہی ہے جو ان فضائی حملوں میں جاں بحق ہوئے ہیں؛ تاہم انہوں نے احتیاط سے کام لینے پر زور دیا ہے کہ جو لوگ نجی طور پر مرنے والوںکی تعداد کے بارے میں بیانات دے رہے ہیں انہیں درست نہ تسلیم کیا جائے بلکہ غزہ کے محکمۂ صحت کے حکام مرنے والوں کی جو تعداد بتا رہے ہیں‘ وہ لگ بھگ درست ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اگر ان حملوں میں سویلینز اوربچوں کو نقصان پہنچا ہے تو ہمیں اس پر افسوس ہے‘ ہم اپنے آپریشنز کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں اور اس با ت کو یقینی بنا رہے ہیں کہ اپنے فوجی ڈسپلن کے ساتھ ساتھ عالمی قوانین کا بھی احترام کیا جائے؛ تاہم بہت سے انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسرائیل پہلے ہی ان قوانین کی شدید خلاف ورزی کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فار ہیومین رائٹس والکر ٹرک نے کہا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی سویلینز کو جس طرح نشانہ بنایا ہے اور انہیں مجبوراً گھروں سے بے دخل کیا ہے وہ جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کے مترادف ہے۔ اسرائیل کی شدید بمباری کی وجہ سے عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد جاں بحق ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ ایک ناقابل برداشت نقصان ہے۔ کئی عالمی ماہرین نے وارننگ دی ہے کہ بچے کہیں بھی چلے جائیں‘ وہ شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ یونیسیف کی ڈائریکٹر کیتھرین رسل کے مطابق: غزہ کے ایک ملین سے زائد بچوں کے لیے کوئی بھی محفوظ جگہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر محمد ابوموسیٰ نے بتایا کہ وہ خان یونس کے النصر ہسپتال میں پندرہ اکتوبر کو چوبیس گھنٹے کی شفٹ پر تھے‘ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیل نے جنوب میں انخلا کے لیے ایک لائن کھینچ دی تھی۔ مجھے اپنے قریب ہی ایک زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی۔ میں نے فوری طور پر گھر اپنی بیوی کو فون کیا مگر دوسری طرف سے مجھے صرف چیخیں سنائی دیں۔ جلد ہی میری بیوی، بارہ سالہ بیٹی اور نو سالہ بیٹے کو ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں لایا گیا۔ وہ مٹی اور خون سے لتھڑے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں ہر طرح سے حوصلہ دینے کی کوشش کی مگر جب مجھے پتا چلا کہ میرا سات سالہ بیٹا ان کے ساتھ نہیں تھا تو میں اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں نے پوچھا کہ یوسف کہاں ہے؟ تو کسی نے کچھ جواب نہ دیا۔ صحافیوں کی بنائی ہوئی وڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح دیوانہ وار اپنے بیٹے یوسف کو تلاش کر رہے تھے۔ انہوں نے آئی سی یو سمیت تمام شعبوں سے یوسف کے بارے میں پوچھا کہ ان کے بیٹے کو وہاں تو نہیںلایا گیا۔ پھر ایک صحافی نے ان کے مسمار شدہ گھر کی تصاویر انہیںدکھائیں۔ ڈاکٹر ابوموسیٰ کو یاد تھا کہ آج صبح گھر سے آنے سے قبل انہوں نے جب یوسف کو پیار کیا تھا تو اس نے سرمئی رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ ڈاکٹر ابوموسیٰ ایک خوف کے عالم میں ہسپتال سے مردہ خانے کی طرف گئے۔ انہیں یوسف کی میت مردہ خانے میں مل گئی۔ وہ ایک ہنس مکھ بچہ تھا جس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ بکھری رہتی تھی۔ تصویر میں اس کی زبان باہر نکلی ہوئی تھی۔ اب اس کا بے جا ن جسم سامنے پڑا تھا۔ ڈاکٹر ابوموسیٰ کے لیے یہ ایک ناقابل برداشت صدمہ تھا۔ ایک کولیگ نے انہیں سینے سے لگا کر دلاسا دیا۔ موت زندہ انسانوں کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہے۔
ندا زعیم ایک مینٹل ہیلتھ افیسر ہیں اور غزہ میں انٹرنیشنل کمیٹی فار ریڈ کراس کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بچوں میں ٹراما کی علامات ہیں۔ وہ رات کو خوف سے اٹھ جاتے ہیں۔ وہ چیخیں مار کر نیند سے بیدار ہو جاتے ہیں۔ ندا زعیم اس وقت جنوب میں واقع رفح کے شیلٹر ہوم میں کام کر رہی ہیں۔ وہ اپنے چار بچوں کے ہمراہ اسی جگہ رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ روزانہ رات کے وقت بچے چیخیںمارتے ہوئے اٹھ بیٹھتے ہیں ’’ہم مر رہے ہیں۔ ہم مر رہے ہیں۔ وہ چیختے ہیں، التجائیں کرتے ہیں، پلیز! ہمیں بچا لو، پلیز! ہمیں کہیں چھپا لو، میں مرنا نہیں چاہتا‘‘۔
غزہ ایک ساحلی پٹی ہے جہاں بحیرہ روم کے کنارے کھانے پینے کی آئوٹ لیٹس بنی ہوئی ہیں اور یہاںساحلی کلچر نمایاںنظر آتا ہے۔ یاسر ابواسحاق یاد کرتا ہے کہ وہ کس طرح اپنی تین بیٹیوں کو یہاں پیراکی سکھایا کرتا تھا۔ وہ مجھے ہمیشہ ساحل پر اور تفریحی پارکس میں لے جانے کے لیے کہا کرتی تھیں۔ میں انہیںکھیلتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوا کرتا تھا۔ اس کی سات سالہ بیٹی امل کا نام ا س کی دادی کے نام پر رکھا گیا تھا۔ وہ سکول میں ایک ذہین سٹوڈنٹ سمجھی جاتی تھی۔ گھر آکر وہ ٹیچر بن جاتی تھی اور اپنی چار سالہ بہن اسرا کو پڑھایا کرتی تھی جسے چاکلیٹ اور کھلونے بہت پسند تھے۔ وہ بڑے شوق سے کھیلتی تھی۔ جب یاسر ابواسحاق کے گھر پر بمباری ہوئی تو اس میں اس کی بیوی کے ہمراہ دونوں بیٹیاں بھی جاں بحق ہو گئیں۔ اس نے بتایا کہ اس کے فیملی کے مارے جانے والے 25 لوگوں میں 15 بچے شامل تھے۔ مقامی صحافیوں نے فضائی حملے کی فوٹیج شیئر کی جس میں اس کے خاندان کے مرنے والے افراد کی میتیں بھی نظر آ رہی تھیں۔ ابواسحاق نے بتایا کہ میں اور میری ایک سالہ بیٹی حبیبہ شدید زخمی ہو گئے تھے اور ہمیں ہسپتال لے جایا گیا۔ میری بیوی اور بیٹی امل کو ملبے سے کھینچ کر باہر نکالا گیا تھا۔ بعد میں رشتے داروں نے میری بیوی کی تدفین کی تھی۔ مجھے اپنے پیاروں کو الوداع کہنے کا بھی موقع نہ مل سکا۔ اگلے دن بیٹی اسرا کی لاش مردہ خانے سے مل گئی۔ میں نے اسے اٹھا کر اپنے گلے لگایا اور اسے پیار کیا۔ میں نے اسے خدا حافظ کہا اور بے اختیار رونے لگا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ میں کتنا رویا تھا۔ (ختم)
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسر چ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)