غزہ کی تعمیرِ نو کا عزم
تحریر: کمال عالم اشراوی
میں ایک بچہ تھا اور شمالی غزہ کے علاقے جبیلیہ میں رہتا تھا‘ جب میں نے ایک اسرائیلی فوجی کو قریب سے دیکھا تھا۔ اسرائیلی فوج نے ہمارے کیمپ اور گھر پر حملہ کردیا تھا۔ یہ قبضہ تین دن تک جاری رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد میں اسرائیلیوں سے خوفزدہ رہنے لگا تھا۔ مجھے ہر وقت یہی لگتاکہ اسرائیلی مجھے قتل یا اغواکرنے آ رہے ہیں۔ مگر میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ دنیا کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ لوگ جنگوں میں کس طرح مل جل کر رہتے اور کام کرتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ایک روز میں بھی غزہ کو بہتر بنانے کے لیے کام کروں گا۔ لیکن اس ہفتے میں نے ایک ایسا قدم اٹھایا جس سے میرا مستقبل محفوظ ہو گیا یعنی میں غزہ سے فرار ہو گیا۔
میں ایک فلسطینی ہوں جس کی پرورش غزہ میں ہوئی ہے اس لیے میں اس تنازع کو بخوبی جانتا ہوں۔ میرا خاندان 1948ء سے بے گھر ہے۔ میری دادی مجھے ہمارے گائوں المحارقا کی سچی کہانیاں سنایا کرتی تھی جو غزہ شہر سے نو میل کے فاصلے پر تھا۔ غزہ ہمیشہ سے حالت جنگ میں رہا ہے مگر ایسی جنگ پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ کہاں جانا ہے اور کیا میں زندہ بچ بھی پائوں گا یا نہیں۔ پھر بھی میں ایک امید پر زندہ ہوں۔ میرے گائوں پر حملے کے سات سال بعد میں اپنی شرائط پر اسرائیلیوں سے ملا تھا۔ میں پندرہ سال کا تھا کہ میرے بھائی نے مجھے Seeds of Peace نامی ایک امریکی سمر کیمپ میں اپلائی کرنے کامشورہ دیا جو بقائے باہمی کے نظریے کو فروغ دینے اور مستقبل کے کمیونٹی لیڈرز بنانے میں مدد کرتا ہے۔ سیڈز نے مجھے ایک فل سکالر شپ دی۔ میں نے اس کیمپ میں شریک ہونے کے لیے پہلی مرتبہ غزہ کو چھوڑا تھا اور اس موقع نے میری زندگی تبدیل کر دی۔
غزہ کے لوگوں کو دوسرے علاقوں کے لوگوں سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم سفر کرنے یا دنیا گھومنے کا شوق نہیں رکھتے۔ سیڈز کے ذریعے نہ صرف مجھے غزہ سے باہر کی دنیا دیکھنے کا موقع ملا بلکہ مجھے اپنی کہانی اس انداز میں بیان کرنے کا بھی موقع مل گیا جو دوسرے کے دل کو چھو لے۔ میری زندگی دوسرے لوگوں کی زندگیوں سے جڑ گئی۔ میں نے اس موقع سے اس لیے فائدہ اٹھایا کیونکہ میں اسرائیلیوں اور دوسرے لوگوں کو بتانا چاہتا تھا کہ غزہ کے لوگ کس طرح اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ میں انہیں یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ ہمیں بھی جینے کا حق ہے۔ میں انہیں غزہ کے کلچر کے بارے آگاہی دینا چاہتا تھا تاکہ وہ یہاں کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کوئی اقدامات کریں۔
سیڈز کے سمر کیمپ کے بعد میں نے پولیٹکل سائنس اور قیام امن سے متعلق کورسز بھی کیے۔ غزہ میں قیام کے دوران میں نے الازہر یونیورسٹی کے لاء سکول میں بھی داخلہ لیا جہاں میری ساری توجہ اس تنازع کے حل پر رہی۔ دو سال پہلے میں نے یروشلم میں ایک آن لائن پروگرام میں بھی شرکت کی تھی‘ اس سے بھی مجھے غزہ، مغربی کنارے اور دیگر مقاما ت پر قیامِ امن کے لیے کام کرنے میں مدد ملی۔ میں شمالی آئرلینڈ بھی گیا اور ان لوگوں سے ملا جو گڈ فرائیڈے ایگریمنٹ کرانے میں شامل تھے۔ اب میرا دنیا بھر کے متنازع علاقوں کے لوگوں سے رابطہ ہے۔ اس موسم گرما میں سیڈز آف پیس نے مجھے ایک کمیونٹی ایکشن پروگرام ترتیب دینے میں مد د کے لیے کہا جس میں بچوں کو یہ سکھانا ہے کہ و ہ اپنی کمیونٹیز میں کس طرح سنجیدہ کام کر سکتے ہیں۔ اسی دوران مجھے ایک لیگل آفیسر کے طور پر ایک سولر انرجی کمپنی سن باکس کے ساتھ کام کرنے کا بھی موقع ملا جو غزہ میں بجلی فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ میں اپنے کام کے سلسلے میں ریاض چلا گیا تھا، ایک دن مجھے اپنی بہن کی شادی میں شرکت کے لیے غزہ واپس جانا پڑا؛ چنانچہ مجھے سات اکتوبر کے حملوں سے پہلے غزہ میں سولر پروجیکٹس کو وزٹ کرنے کا بھی موقع مل گیا۔
گزشتہ سات ہفتے بہت خوفناک تھے۔ جنگ شروع ہوئی تو میں اپنے خاندان کے پچاسی افراد کے ہمراہ تھا۔ ہم زیادہ عرصہ کہیں بھی نہیں رہ سکے بلکہ ہم غزہ سے خان یونس کے علاقے میں شفٹ ہو گئے، خان یونس سے رفح چلے گئے اور وہاں سے واپس خان یونس آئے اور پھر جانیں بچانے کے لیے اپنے والدین کے گھر غزہ آ گئے۔ کئی ہفتوں تک ہماری روٹین یہ رہی کہ ہم پینے کے صاف پانی او ر اپنے فون چارج کرنے کے چکر میں ہی پڑے رہے۔ ان کاموں میں کئی کئی گھنٹے لگ جاتے تھے۔ ہر صبح کوئی بریڈ لینے جاتا اور کوئی پینے کا پانی لینے نکل پڑتا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو ہمیں اپنے تہہ خانوں میں چھپنا پڑا اور ہم باہر نکل ہی نہیں سکتے تھے۔ اس مہینے کے شروع میں ہم پھر خان یونس آ گئے۔ ہمیں کبھی پیدل اور کبھی گدھا گاڑیوں پر سفرکرنا پڑا۔ ہمارے اردگرد گولیاں چل رہی اور بم پھٹ رہے تھے۔ سڑکیں غلاظت اور لاشوں سے اٹی ہوئی تھیں۔ یہ سب کچھ بہت خطرناک تھا اور ہم غزہ میں نہیں رہ سکتے تھے۔ ہمارے تمام بچے بیمار ہونے لگے اور ہمار ے پا س انہیں دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ میں خود کئی دن تک بھوکا رہا۔ ایک بے یقینی کا عالم تھا۔
میری خوش قسمتی کہ اس جمعرات کو مجھے اپنے والدین اور خاندان کے کچھ افراد کے ہمراہ مصر جانے کا موقع مل گیا۔ ہم اپنے دوستوں کو ایک خوفناک جنگ میں چھوڑ کر آئے ہیں جن کے گھر کھنڈر بن چکے ہیں۔ اب میں نے دو باتیں سیکھی ہیں۔ سویلینز کو ایسے حالا ت میں نہیں ہونا چاہئے اور صرف بقائے باہمی ہی اس تنازع کا حل ہے۔ میرے خیال میں اس کے لیے دو اقداما ت کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا کام ذاتی اور کمیونٹی لیول پر کرنا ہو گا۔ لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ فریقین کے لیے ایک ہی وقت میں اور امن سے جینے کا موقع موجود ہے۔ اس کام کا آغاز سکولوں سے ہو سکتا ہے جہاں اس بار ے میں آگہی اور بقائے باہمی سے متعلق سرگرمیاں شروع کی جائیں۔ یہی کچھ شمالی آئرلینڈ میں بھی کیا گیا تھا۔ جبکہ دوسرا اقدام سرکاری اور بین الاقوامی سطح پر کیا جانا چاہئے۔ دنیا بھر کے ممالک اور حکومتوں کو چاہئے کہ وہ بقائے باہمی کے نظریے کو پرموٹ کریں اور لوگوں کو یہ احساس دلائیں کہ ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور تعصب کے بجائے بقائے باہمی کے ادراک کے ساتھ بھی پُرامن زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
میں بقائے باہمی کے آئیڈیا کا ہی حامی ہوں کیونکہ میں اس تنازع سے بیزار ہو چکا ہوں۔ غزہ میں رہنے والے بیس لاکھ سے زائد فلسطینی بھی اس تنازع سے تنگ آچکے ہیں۔ ہم بھی اسی طرح پُرامن زندگی جینا چاہتے ہیں جس طرح دیوار کے اُس پار والے اسرائیلی شہری جی رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا ممکن ہے۔ ہمیں اس کے لیے کچھ مزید کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر چیز کی تعمیرِ نو میں بہت وقت لگے گا مگر تباہی کے جو مناظر میں دیکھتا ہوں وہ صرف کنکریٹ کے ٹکڑوں کو پھر سے جوڑنے کا کام نہیں ہے۔ ان گھروں اور دیواروں کے پیچھے کئی کہانیاں موجود ہیں۔ ہمیں پہلے والی زندگیاں اور کہانیاں بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے لوگوں کو ان کہانیوں کی نگہداشت کرنا ہو گی تاکہ ان سب کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑکر اس تنازع کو حل کیا جا سکے۔ ہم سب کچھ پھر سے تعمیر کر سکتے ہیں خواہ اس میں پچاس‘ ساٹھ سال لگ جائیں۔ ہم اپنے تباہ شدہ پروجیکٹس پر عالمی برادری سے سرمایہ کاری لے سکتے ہیں۔ ہمیں امن کی ضرروت ہے۔ جنگ اس خوبصورت خطے کو جتنا بھی تباہ کر دے‘ ہم اسے ٹھیک کر لیں گے۔ میں جب واپس آیا تو یہ سب کچھ ٹھک کرنے کے لیے کام کروں گا۔
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)