اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکہ‘ بھارت اور سی پیک

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک کے یہ انکشافات چونکا دینے والے ہیں کہ بھارتی اعانت کے ساتھ امریکہ سی پیک کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ اور بھارت مسلسل کوششیں کر رہے ہیں کہ پاکستان کو بی آر آئی سے نکالیں۔ جہاں تک بھارت کا ذکر ہے تو اس بارے میں کوئی شبہ نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان ترقی کے راستے پر چلے اور علاقائی سطح پر کوئی ایسا اتحاد قائم ہو جو خطے میں بھارت کی نام نہاد برتری کو چیلنج کرے‘ تاہم معاشی ترقی کے اس عالمی منصوبے کی مخالفت میں امریکہ کا بھارت کے ساتھ مل جانا باعث تشویش ہے۔ مغرب چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انی شی ایٹو‘ کو سیاسی اثر و رسوخ کے آلہ کار کے طور پر دیکھتا اور یہ مانتا ہے کہ ایشیا‘ افریقہ اور مشرقی یورپ کے خطوں کے ممالک میں بی آر آئی کے منصوبوں کے ذریعے چین مغربی اثر و رسوخ کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ اسی وہم کے زیر اثر امریکہ بی آر آئی اور سی پیک کے منصوبوں پر شبہات کی گرد ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتا آیا ہے۔ کبھی چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے بے یقینی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی سی پیک یا بی آر آئی کے دیگر منصوبوں کی معاشی افادیت پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ وہ ہتھکنڈے ہیں جو منظر عام پر نظر آتے ہیں مگر تہہ میں کیا طوفان برپا ہیں عام آدمی کی نظر یہاں تک نہیں جاتی؛ تاہم سطح پر ہلچل سے در پردہ حالات کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

چونکہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی اس معاملے میں عام آدمی نہیں ہیں اس لیے جن خدشات کا اظہار انہوں نے کیا ہے وہ نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ یہ بات اہم ہے کہ سی پیک کے خلاف سازشوں میں بھارت کے ساتھ امریکی موجودگی کا ذکر ایسے واضح انداز میں پہلی بار کیا گیا ہے‘ مگر ایسے خدشات کا صرف اظہار کافی نہیں بلکہ متعلقہ ملک کے ساتھ سفارتی سطح پر بھی اس معاملے کو اٹھانا ہو گا۔ عالمی معاشی روابط کا یہ ذریعہ  پاکستانی معیشت کیلئے گیم چینجر ہے اور پاکستان کے جغرافیائی اوصاف کو قومی مقاصد کیلئے بروئے کار لانے کا بہترین ذریعہ بھی۔ پاکستانی قوم اس حوالے سے پُراعتماد ہے؛ چنانچہ ہمارا بنیادی حق ہے کہ اپنے قومی مقاصد اور مفادات کی خاطر اپنی مرضی کے فیصلے کریں اور ہمیں یہ بھی اعتماد ہے کہ ہمارا یہ فیصلہ کسی ملک یا قوم کے ضد میں نہیں۔ پاکستان سی پیک میں اس لیے شامل نہیں ہواکہ چین اور امریکہ ایک سطح پر مفادات کے ٹکراؤ کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ سی پیک میں پاکستان کی چین کے ساتھ پارٹنرشپ کا بنیادی مقصد قومی ترقی کے مقاصد میں ایک ایسے دیرینہ دوست ملک کے ساتھ شراکت داری ہے جس نے پاکستان کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائی۔ امریکہ کو یہ بات باور کروانے کی ہے اور یہ کام مدلل انداز سے کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ‘ جو بوقت ضرورت پاکستان کو گلے لگاتا اور مطلب پورا ہونے پر آنکھیں پھیر لیتا ہے‘ پر یہ واضح کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کسی ایک ٹوکری میں سارے انڈے رکھنے کیلئے تیار نہیں۔ صرف پاکستان نہیں امریکہ کے نیٹو اتحادی‘ متعدد یورپی ممالک بھی اس کام کیلئے آمادہ نہیں۔ موجودہ ملٹی پولر دنیا میں یہ سادہ سی حقیقت اب سبھی کو نظر آ رہی ہے؛ چنانچہ چین کے ساتھ پاکستان کی معاشی پارٹنرشپ پر امریکہ کی شکایت نہیں بنتی۔ سی پیک کے مخالفین کے پروپیگنڈے کا سب سے موثر توڑ یہی ہو سکتا ہے کہ ان منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کی جائے تاکہ ان کے طے شدہ اہداف جلد از جلد حاصل ہوں۔ کام کی سست روی سے نہ صرف یہ کہ مفادات کے حصول میں تاخیر ہوتی جا رہی ہے بلکہ مخالفین کو پروپیگنڈا کا زیادہ موقع بھی میسر آئے گا جبکہ رائے عامہ پر اس کے اثرات بھی زیادہ ہوں گے؛ چنانچہ سی پیک کے مخالفین کی سازشوں کا جواب صرف زبانی اور بیانی طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر بھی دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس عالمی منصوبے کے انفراسٹرکچر کا کام بڑی حد تک مکمل ہو چکا ہے لیکن صنعتکاری اور معاشی سرگرمیوں کی جانب ابھی خاطر خوا ہ پیشرفت نہیں ہوسکی؛ چنانچہ اب اس سمت میں ترجیحاً پیشرفت ہونی چاہیے۔

اس کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ روزگار کے مواقع حقیقتاً اسی طرح پیدا ہوں گے۔ حکومت کی توجہ یقینا اس پر ہو گی مگر عملی طور پر کچھ کرنے کیلئے صرف رسمی توجہ کافی نہیں‘ اس کیلئے ایک طرح کا جنون بھی درکار ہے۔ موجودہ حکومت کی ٹرم کے آخری دو برس اس حوالے سے اہم ہیں کہ اس دوران ملک میں اگر صنعتی ترقی کا کوئی بڑا قدم اٹھ گیا تو اس کے اثرات تاریخی ہوں گے۔ دوسرا کام جو اس وقت کرنا ضروری ہے‘ وہ افغانستان کو اس جانب لے کر آنا ہے تاکہ سی پیک کے عالمی تجارتی سسٹم کا حصہ بن کر افغانستان دنیا سے اور دنیا افغانستان سے فائدہ اٹھائے اور اس ملک کی شناخت دہشتگردی اور انتہا پسندی کی ایکسپورٹ سے معاشی تجارت میں تبدیل ہوسکے۔ اس حوالے سے طالبان کا نقطہ نظر سامنے آ چکا ہے جو حوصلہ افزا ہے۔ سی پیک اور بی آر آئی کے منصوبے جنگ زدہ افغانستان کی حالت زار بہتر بنانے کیلئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوگا کہ سی پیک اور بی آر آئی تعمیری اور ترقیاتی منصوبے ہیں اور انسانی فلاح اور مستقبل کی بہتری کیلئے کارفرما ہیں اور یہ ثبوت ان منصوبوں کے مخالفین کیلئے بہترین جواب ہوگا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement