اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

26ویں آئینی ترمیم کی منظوری

پارلیمان نے دو تہائی اکثریت سے 26ویں آئینی ترمیم کو شق وار منظور کر لیا ہے۔ یوں مہینہ بھر سے حکومت اور اتحادیوں کی کوششیں سرخرو ہوئیں۔ اس آئینی ترمیم کیلئے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعت پیپلز پارٹی دونوں نے بہت تگ ودو کی‘ تاہم اس سلسلے میں اگر کسی ایک شخص کی کارکردگی کو مثالی قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ انہوں نے کوئی ایک مہینہ اس کام کے لیے جس تندہی سے جدوجہد کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے اس آئینی ترمیم کو میثاق جمہوریت کے نامکمل ایجنڈے کے طور پر لیا اور اس کی تکمیل کیلئے دن رات ایک کر دیے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کی رابطہ کاری اور دوروں میں تیزی آتی چلی گئی یہاں تک کہ آئینی ترمیم کا مسودہ وفاقی کابینہ میں پیش ہونے سے چوبیس گھنٹے پہلے پہلے بلاول بھٹو کم وبیش چار بار مولانا فضل الرحمن کی رہائشگاہ پر گئے۔ ملکی آئین کی شاید ہی کسی ترمیم کو اس قدر توجہ حاصل ہوئی ہو جتنی اس ترمیم کو حاصل ہوئی۔ مہینہ بھر صرف پارلیمانی رہنما ہی نہیں عوام نے بھی اسے ایک سنسنی خیز میچ کی طرح دیکھا۔ سینیٹ میں حکومت کے نمبروں میں کمی بیشی کا کیا حساب ہے‘ مولانا فضل الرحمن حمایت کریں گے یا نہیں کریں گے‘ آئینی مسودے میں کیا چھپا ہے؟ کیا حتمی مسودہ وہی ہو گا جو دکھایا گیا ہے؟ اندیشہ ہائے دور ودراز تھے۔ آئینی ترمیم کے مسودے پر پایا جانے والا ابہام بھی اندیشوں کی بڑی وجہ تھا۔ بہرکیف اب کہہ سکتے ہیں دیر آید درست آید۔ مولانا فضل الرحمن نے ترمیم کی حمایت کر دی۔ پی ٹی آئی نے اگرچہ آئینی ترمیم میں ووٹ نہیں دیا مگر جیسا کہ مولانا صاحب نے گزشتہ روز چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے انکار کی وجوہ اس کی ذاتی ہیں۔ جہاں تک مسودے کی بات ہے تو مولانا صاحب کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے کالے سانپ کا زہر نکال دیا ہے اور دانت توڑ دیے ہیں‘‘۔ آئینی مسودہ جو مہینہ بھر سے افتاں وخیزاں تھا گزشتہ روز آناً فاناً سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظوری کا مرحلہ عبور کر گیا اور اس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا۔ میثاق جمہوریت کا نامکمل ایجنڈا مکمل ہو گیا۔ آئین کی 22 شقوں میں ترمیم کر دی گئی۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق عدلیہ کے ساتھ ہے۔ گویا اسے عدالتی اصلاحات کی جانب ایک جست کہہ سکتے ہیں۔ ان ترامیم کی رُو سے اب چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر بارہ رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر ہو گا جو تین سینئر ترین ججز میں سے کسی ایک کو اس عہدے کیلئے چُنے گی۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچ تشکیل پائیں گے۔ از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچوں کے پاس ہو گا۔ سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت جاری نہیں کر سکے گی۔ جوڈیشل کمیشن جس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس‘ اٹارنی جنرل‘ پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ‘ دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینیٹ اور ایک ٹیکنو کریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون سینیٹر یا غیر مسلم سینیٹر شامل ہوں گی‘ ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا کرے گا۔ نیز یہ کہ آنے والے تین برس کے دوران ملکی نظام معیشت کو سود سے پاک کیا جائے گا اور پاکستان کے ہر شہری کو صاف‘ صحت مند اور پائیدار ماحول کا حق حاصل ہو گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان آئینی یقین دہانیوں کا کیا بنتا ہے۔ نظام عدل میں کیا بہتری آتی‘ کیا سستا اور فوری انصاف ملے گا یا آئینی ترمیم کے مفادات عام آدمی کی پہنچ سے دور رہیں گے۔ یہ حقائق بہت جلد سامنے آجائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ سمیت بہت سے اداروں اور قومی معاملات میں اصلاحات کی ضرورت ہے؛ چنانچہ حکومتی جماعتوں نے جس تندہی سے آئینی ترمیم کیلئے کام کیا ضروری ہے کہ اسی جذبے سے بنیادی آئینی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے بھی کام کریں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں