سیاسی مفاہمت اور گرینڈ ڈائیلاگ
وزیراعظم شہباز شریف نے اوور سیز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی حالیہ رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کے پاکستان پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے‘ ملک میں کاروبار کرنے کیلئے ماحول میں بہتری آئی ہے‘ حکومت کی بہتر معاشی پالیسیوں اور معاشی ٹیم کی محنت کے ثمرات ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ معاشی حوالے سے وزیراعظم نے جو تصویر پیش کی ہے‘ اس سے انکار ممکن نہیں مگر سیاسی عدم استحکام کا خطرہ معیشت کیلئے بدستور ایک بڑا خطرہ ہے۔ حالیہ عرصے میں معاشی میدان میں ملنے والی کامیابیوں کی ایک طویل فہرست ہے‘ خواہ وہ سٹاک ایکسچینج کی ریکارڈ بلند سطح ہو یا افراطِ زر کی کم ترین سطح‘ مگر اس کے باوجود سماجی بے چینی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس کی وجہ ہے سیاسی انتشار اور محاذ آرائی۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معاشی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل وہیں قائم رہ سکتا ہے جہاں سیاسی استحکام ہو گا اور سیاسی جماعتیں باہمی کشمکش میں مصروف نہیں ہوں گی۔ معیشت کیلئے سیاست ایک قدر ہمہ گیر عامل ہے کہ پالیسی سے لے کر یوٹیلیٹی تک‘ کوئی شعبہ بھی اسکے اثر ورسوخ سے خالی نہیں ہوتا۔ اگر سیاسی سطح پر امن و سکون ہو گا تو اس کا اثر دیگر شعبوں میں بھی نظر آئے گا۔ اگر سیاسی میدان ہی ہمہ وقت اضطراب کی زد میں رہے گا تو بشمول معیشت‘ دیگر شعبوں میں بھی استحکام کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اس وقت اگر ہم ملکی سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو ایک طرف تحریک انصاف حکومت کے خلاف آمادۂ احتجاج ہے تو دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) سڑکوں پر اترنے کا عندیہ دے رہی ہے۔ یہ صورتحال معاشی استحکام کیلئے قطعاً سازگار نہیں ہے۔ حکومت کو 2021-22ء کی مثال سے سبق سیکھنا چاہیے کہ جب معاشی نمو کی شرح چھ فیصد سے زائد تھی۔ اس وقت کی حکومت سیاسی درجہ حرارت کو مسلسل بڑھاتے ہوئے اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف مقدمے‘ سزائیں اور حزبِ مخالف سے بات چیت کی آفر کو حقارت سے ٹھکرانے کی روش پر گامزن تھی۔ اس سیاسی اضطراب کا ایک نتیجہ حکومت کی تبدیلی کی صورت میں برآمد ہوا اور دوسرا نتیجہ ریاست کو معاشی کریش کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ معاشی کامیابیوں کی پائیداری کے لوازم میں شامل ہے کہ داخلی سطح ہموار اور متوازن ہو۔ اگر داخلی طور پر سیاسی استحکام ہو گا تو بیرونِ ملک سے سرمایہ کاری بھی آئے گی‘ لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور انفرادی خوشحالی بھی ہو گی جو بالآخر سماجی امن وسکون کو راہ دکھائے گی۔ پاکستان جیسی مواقع سے بھر پور سرزمین کیلئے دو‘ تین فیصد شرح نمو اور جی ڈی پی کے 80فیصد کے لگ بھگ قرض افسوس کا مقام ہیں۔ تاہم یہ منظر نامہ پاکستان کے امکانات کی حقیقی تصویر پیش نہیں کرتا۔ لازم ہے کہ ہم معاشی استحکام کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ان اسباب کا بھی تعین کریں جنہوں نے اب تک ہمیں ترقی کے مواقع سے دور رکھا ہے۔ ہمارے بیشتر سیاسی‘ معاشی اور سماجی مسائل کی جڑ ہمیں سیاسی عدم استحکام میں ملے گی لہٰذا اس سنگِ راہ کو ہٹایا جانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ موجودہ حالات ہمارے لیے اُس دو راہے کی مانند ہیں جہاں سے نکلنے والوں راستوں کی منزل واضح ہے۔ ہم چاہیں تو اپنے قومی قافلے کی سمت فلاحی جمہوری مستقبل کی جانب بھی موڑ سکتے ہیں اور چاہیں تو متضاد راہ بھی چن سکتے ہیں۔ یہ قومی سیاسی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتی ہے۔ اگر سیاسی قیادت قومی گاڑی کو استحکام وترقی کی راہ پر ڈالنا چاہتی ہے تو اس کے لیے سیاسی رہنماؤں میں مفاہمت ناگزیر ہے۔ درپیش مسائل کا حل لامحالہ ہمیں گرینڈ ڈائیلاگ کی جانب لے کر جا رہا ہے۔ اس ضمن میں ہم پہلے ہی خاصی تاخیر کر چکے ہیں‘ اب مزید وقت ضائع کیے بغیر اس حل کی جانب بڑھنا ہو گا کیونکہ معاشی کامیابیوں کو اسی وقت پائیدار بنایا جا سکتا ہے جب سیاسی طور پر بھی کوئی بڑا چیلنج درپیش نہ ہو۔