پائیدارامن کے امکانات اور خدشات
خیبرپختونخوا کے ضلع کُرم میں امن معاہدہ طے پانے کے باوجود گزشتہ روز پیش آنے والا فائرنگ کا واقعہ‘ جس میں ڈپٹی کمشنر کُرم سمیت چھ افراد زخمی ہو گئے‘ اس امر کا غماز ہے کہ بعض عناصر اس علاقے میں امن قائم ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ اسی روز تربت میں شدت پسندوں نے ایک بس پر حملہ کیا ہے جس میں چار مسافر جاں بحق ہو گئے۔ کُرم میں پیش آنے والا واقعہ اس امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش ہے جس سے علاقے کے عوام کی مشکلات مزید بڑھیں گی اور پائیدار امن کا قیام مزید تاخیر کا شکار ہو گا۔ کُرم میں حالیہ کشیدگی گزشتہ برس نومبر میں شروع ہوئی تھی ‘ تب سے یہ علاقہ باقی صوبے سے کٹا ہوا ہے‘ جس کی وجہ سے علاقہ مکینوں کو اشیائے خورونوش اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے۔ تین روز قبل جب خیبرپختونخوا حکومت اور قبائلی عمائدین کی کوششوں سے فریقین میں امن معاہدہ طے پایا تو علاقے کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ۔ اس طرح یہ خبر ملک بھر کیلئے باعث ِاطمینان تھی کہ معاہدے کی پاسداری سے علاقے میں امن قائم ہو گا اور زندگی معمول پر آئے گی۔ مگر گزشتہ روز جب ڈپٹی کمشنر کُرم امدادی سامان لانے والے ٹرکوں کیلئے راستے کھلوانے لوئر کُرم گئے تو مسلح شرپسندوں نے سرکاری گاڑیوں پر فائرنگ کر دی۔ شرپسند عناصر کی یہ کارروائی ریاستی عملداری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے‘ جس کا ریاستی اداروں کو پوری قوت سے جواب دینا چاہیے۔ افغان سرحد سے ملحق ہونے کی وجہ سے کُرم پاکستان کے حساس ترین علاقوں میں شامل ہے۔ اس علاقے میں کشیدگی کے محرکات دگرگوں ہیں ‘ جن میں فرقہ وارانہ اور اراضی کے تنازعات کی وجہ سے قبائلی دشمنیاں اہم ہیں۔ دوسری جانب افغانستان سے دہشت گرد ماضی میں کُرم کے مقامی تنازعات سے فائدہ اٹھا کر اس علاقے میں جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرتے رہے ہیں۔ اب جب کُرم امن معاہدے سے علاقے میں امن کا امکان پیدا ہوا تو ملک دشمن عناصر نے ایک بار پھر اپنے عمل سے شرپسندی کو ہوا دی ہے۔ حالیہ کشیدگی سے قطع نظر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔خیبر پختونخوا اوربلوچستان میں دہشت گردی کے بڑھتے خطرات کے پیشِ نظر صوبائی حکومتوں کو مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔خیبر پختونخوا کی حکومت بیشتر وقت سیاست میں مگن رہی جبکہ شدت پسند عناصر صوبے کے طول و عرض میں اپنا دائرہ بڑھاتے رہے ہیں۔ صوبائی حکومت کو سیاست کے بجائے عوامی خدمت اور سلامتی کو اولین ترجیح بنانا چاہیے۔ اگرچہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے حالیہ کارروائی میں ملوث امن دشمن عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا ہے لیکن موجودہ صورتحال بیانات سے زیادہ عملی اقدامات کی متقاضی ہے۔ وفاقی حکومت کوبھی تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت کیساتھ قیامِ امن کی کوششوں میں مکمل تعاون کرنا چاہیے۔ مگر یہ حقیقت بھی مد نظر رہے کہ ملک میں سیاسی ہم آہنگی کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ سیاسی عدم استحکام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دہشت گردوں کو اپنے مذموم مقاصد کا موقع فراہم کرتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہے خیبر پختونخوا میں امن کی ناقص صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ سیاسی ہم آہنگی کی کوششوں میں سنجیدگی اختیار کی جائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پوری قوم کی جنگ ہونی چاہیے ۔ سیاسی‘ مذہبی اور نظریاتی سطح پر تمام طبقات کو یکسو ہو کر اس کیلئے بروئے کار آنا ہوگا۔ اگر ان حالات میں بھی سیاسی حساب چکائے جاتے رہیں گے اور دہشت گردی سے شدید متاثر صوبہ خیبرپختونخوا کے ساتھ وفاقی سطح پر کافی تعاون نہیں ہو گاتو اس کے خطرناک مضمرات ہو سکتے ہیں۔ ضروری ہے کہ قومی سلامتی کے خطرات کا قومی مفاہمت سے جواب دیا جائے۔