مذاکرات اور خدشات
حکومت اور پاکستان تحریک انصاف میں مذاکراتی عمل کو شروع ہوئے کوئی دو ہفتے ہوئے ہیں مگر دونوں جانب سے اٹھنے والی اختلافی آوازوں سے مذاکراتی عمل کھٹائی میں پڑنے کا خدشہ پیدا ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی کے بقول بارہ دن گزرنے کے بعد بھی ہم مذاکرات میں ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش نہ کیے تو مذاکراتی عمل مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما اور مذاکراتی کمیٹی کے رکن اسد قیصر کہہ رہے ہیں کہ حکومت مذاکراتی عمل میں ان سٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کرے جن کے پاس‘ بقول اُن کے فیصلہ سازی کے حقیقی اختیارات ہیں۔ پی ٹی آئی کا اشارہ سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ وہ سیاستدانوں کے بجائے مقتدرہ سے بات چیت کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں اور اس کا اظہار ان کی جماعت اس سے پہلے بھی متعدد مرتبہ کر چکی ہے۔ یہ صورتحال سیاسی جماعتوں میں ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ حالیہ مذاکرات سے توقع کی جا رہی تھی کہ سیاسی جماعتیں اپنے حالات اور تاریخ سے سیکھ کر اپنا طرزِ عمل تبدیل کرنے کے قابل ہو چکی ہیں مگر دو ہفتوں کے دوران ہی انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ باہمی اعتماد کے معاملے میں ان سے امیدیں غلط ہیں اور وہ بدستور اسی سطح پر ہیں جہاں پہلے تھیں۔ یوں سیاسی مذاکراتی عمل سے جڑی امیدوں پر اوس پڑ جاتی ہے اور اس کا نقصان ملک‘ عوام اور خود سیاسی جماعتوں کو بھی ہے۔ ملک کو معاشی استحکام اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے سیاسی استحکام بنیادی شرط ہے جو سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں۔ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ مگر ملکی اور قومی مفاد میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے میں تو کوئی امر مانع نہیں۔ دنیا بھر کے جمہوری معاشروں میں سیاست اور ریاست اسی طرح ساتھ ساتھ چلتی ہے مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے ان سب سے مختلف ڈھنگ اختیار کر رکھا ہے ۔ وہ قومی مفاد میں ذرا سی قربانی دینے اور اپنی انا کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ وہ عوامی حمایت سے سیاست میں اپنا مقام پیدا کرنے کے بجائے اپنے لیے کوئی کردار پیدا کر دیے جانے کی خواہشمند دکھائی دیتی ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا یہ رویہ جمہوری عمل کی ساکھ کیلئے مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستان آج جس صورتحال میں ہے یہاں سیاسی ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس کے بغیر نہ معاشی امکانات پنپ سکتے ہیں اور نہ دیگر چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مناسب ماحول بن سکتا ہے۔ چنانچہ حکومت اور حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت میں سیاسی سطح پر بات چیت کئی حوالوں سے اہم ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں پر ہے کہ وہ خود کو نئے حالات اور تقاضوں کے مطابق ڈھالتی ہیں یا ماضی کی سیاست کو اس دور میں بھی اُسی طرح لیے چلیں گی ‘ حالانکہ اس دور کے تقاضے‘ مطالبے اور مسائل ماضی سے بہت مختلف ہیں۔ پاکستان اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی آبادی والا ملک ہے جہاں نوجوان آبادی کا تقریباً 70 فیصد ہیں۔ انہیں تعلیم‘ تربیت اور کام کے مواقع چاہئیں۔ یہ صرف دعووں اور اعلانات سے ممکن نہیں‘ اس کیلئے زمین پر بھی کچھ ہونا ضروری ہے اور یہ سب کچھ سیاسی انتشار کے شکار معاشرے میں ممکن نہیں۔ جنوبی ایشیا کے ممالک میں پاکستان ترقی کی شرح میں سب سے پیچھے ہے اور ورلڈ بینک کے تخمینے کے مطابق یہ صورتحال اگلے برس بھی یونہی رہے گی۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے بجائے ہماری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے نمٹنے میں مصروف ہیں‘ ایسے حالات میں بہتری کی امیدیں دم توڑ دیتی ہیں۔اگر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار نہ ہوں تو ان مسائل کے حل کی کیا توقع کی جا سکتی ہے جو اَب دائمی امراض کی صورت اختیار کر چکے ہیں ؟