اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

بجلی کا شعبہ، جامع اصلاحات کی ضرورت

بجلی کا فعال شعبہ ترقی کی ضمانت ہے مگر ہمارے ہاں اس شعبے کی کیا صورتحال ہے اور کن مسائل کا سامنا ہے نیپرا کی ’’سٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ 2024ء‘‘ اس کی کافی جانکاری فراہم کرتی ہے۔ اس رپورٹ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بجلی کے شعبے میں حکومت کے ناقص فیصلوں اور بے ثمر پالیسیوں کا بوجھ صارفین پر پڑ رہا ہے۔ مثال کے طور پرگزشتہ سال بجلی کی اوسط پیداواری صلاحیت کا صرف 33فیصد بروئے کار لایا جا سکا‘ یوں  46ہزار میگاواٹ کی پیدواری صلاحیت کا خمیازہ صارفین کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں 67فیصد زائد ادائیگیاں کر کے بھگت رہے ہیں۔ بجلی کی قیمت کے مقابلے میں کپیسٹی پیمنٹ دو تہائی ہے اور یہی بجلی کی بھاری قیمتوں کی سب سے بڑی وجہ ہے۔آئی پی پیز کے ساتھ مہنگے معاہدوں کے بجائے سستے پیداواری منصوبوں کے حوالے سے حکومتی سطح پر پالیسی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے اختتام تک ایک لاکھ 56ہزار سے زائد چھوٹے سولر یونٹس نے 2200 میگاواٹ بجلی پیدا کی مگر حکومت اور بجلی کی ترسیلی کمپنیاں نیٹ میٹرنگ کو ایک چیلنج کے طور پر دیکھتی ہیں‘ حالانکہ شمسی توانائی کے اس نظام کو چیلنج کے بجائے ایک حل کے طور پر دیکھا جائے تو اس سسٹم میں حکومت اور ترسیلی کمپنیوں کے نقصانات صفر ہیں جبکہ کپیسٹی پیمنٹس کا بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے 2031ء تک قابلِ تجدید توانائی سے 3420 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا جو ہدف مقرر کر رکھا ہے وہ نیٹ میٹرنگ سے بہ آسانی پورا ہو سکتا ہے۔ اگر پاور سیکٹر کے نقصانات کی بات کی جائے تو گزشتہ مالی سال کے اختتام پر گردشی قرضہ 2393 ارب روپے سے تجاوز کر چکا تھا۔ بجلی کے ٹرانسمیشن اور ترسیلی نقصانات گزشتہ مالی سال کے مقابلے 11.77 فیصد سے بڑھ کر 18.31 فیصد ہو گئے اور 276 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح بلوں کی ریکوری کی شرح 92.4 فیصد رہی جس سے گردشی قرضے میں 314ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا۔ ترسیلی کمپنیوں کے نقصانات کی بات کی جائے توبجلی چوری کے بعد بلوں کے نادہندگان سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ اس وقت900 ارب روپے سے زائد کے بقایا جات بلوں کی عدم ادائیگی میں پھنسے ہوئے ہیں اور بجلی چوری کے خلاف جارحانہ مہم کے باوجود گزشتہ مالی سال صرف 15 ارب روپے کی وصولیاں ہوئیں۔ حکومت نے موسم سرما کیلئے بجلی کے رعایتی پیکیج کا اعلان کیا ہواہے مگر یہ پیکیج صارفین کو متوجہ کرنے کیلئے ناکافی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ سلیب ریٹ پالیسی ہے۔ چونکہ ایک بار سلیب تبدیل ہونے سے آئندہ چھ ماہ تک مالی بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے‘ اس وجہ سے صارفین سرماپیکیج کے باوجود زیادہ بجلی استعمال کرنے سے گریزاں ہیں۔ جہاں ایک طرف آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی کا رجحان برقرار رکھنے کی ضرورت ہے وہیں پاور سیکٹر کی پالیسیوں پر بھی نظر ثانی ناگزیر ہے۔ مہنگی بجلی ہماری صنعتی پیداوار کی مسابقتی صلاحیت ختم کر چکی ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو صرف 0.92 فیصد رہی‘ جو معاشی ہدف اور قومی تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ صنعتوں کو چلانے کیلئے سستی توانائی ایک اہم ضرورت ہے مگر بجلی کے شعبے میں پائیدار اصلاحات اور گردشی قرضوں میں کمی کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ پرانے گرڈ کے بنیادی ڈھانچے کو اَپ گریڈ کرنے میں محدود سرمایہ کاری پیسوں کے ضیاع کے مترادف ہے‘ اس حوالے سے ایک ہی بار کڑوا گھونٹ بھرنا چاہیے۔ بجلی کے شعبے کے مسائل کا حل جامع اصلاحات میں مضمر ہے‘ جن میں ٹیرف کی اصلاح‘ قابلِ تجدید توانائی کی توسیع اور گرڈ کی تجدید شامل ہو۔ اب ہم جس موڑ پر پہنچ گئے ہیں‘ یہ شعبہ فوری اور جامع اقدام کا تقاضا کرتا ہے۔ اُڑان پاکستان پروگرام کے تحت آنے والے پانچ برس کے دوران برآمدات اور قومی پیداوار میں معتدبہ اضافہ کرنا ہے تو یہ بجلی کے شعبے میں جامع اصلاحات کے بغیر ممکن نہ ہو گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں