غذائی عدم تحفظ
فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ عالمی سطح پر ایک سنگین چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے اورپاکستان بھی اس سے محفوظ نہیں ۔ وزارتِ قومی صحت کے حالیہ نیوٹریشن سیکٹر بلیٹن کے مطابق 2024ء میں پاکستان کو غذائی تحفظ کے حوالے سے اہم چیلنجز درپیش رہے اور اب بھی ملک میں غذائی قلت اور غذائی عدم تحفظ کی شرح 22 فیصد ہے۔ غذائی قلت بچوں کی نشوونما پر بطورِ خاص اثرانداز ہو رہی ہے۔ متوازن خوراک میسر نہ ہونے کے باعث ملک میں پانچ سال سے کم عمر 40 فیصد سے زائد بچوں کا قد عمر کے تناسب سے چھوٹا ہے ‘ 29 فیصد کا وزن قد کے تناسب سے کم ہے جبکہ نصف سے زیادہ خون کی کمی کا شکار ہیں ۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کو روزانہ آٹھ اہم فوڈ گروپس میں سے پانچ غذائیں لازمی کھانی چاہئیں لیکن پاکستان کا کم آمدنی والا طبقہ اپنے بچوں کی غذائی ضروریات پوری نہیں کر پاتا۔غذائی قلت کی بڑی وجہ اشیائے ضرورت کا عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہونا ہے۔ اگرچہ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ ماہ ملک میں مہنگائی کی شرح 4.1فیصد پر آ چکی ہے لیکن مہنگائی میں کمی کے اثرات اب بھی عام آدمی تک منتقل نہیں ہو سکے ہیں۔ گزشتہ دس برس کے دوران ملک میں بیروزگاری کی شرح ڈیڑھ فیصد سے بڑھ کر سات فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ جب غریب آدمی کے پاس کوئی ذریعۂ روزگار ہی نہیں ہوگا تو وہ اپنی غذائی ضرورت کیونکر پوری کر سکے گا۔ حکومت کو غریب طبقے کی معاشی سکت بڑھانے کا عزم کرنا ہوگا تاکہ وہ بہ آسانی اپنی غذائی ضروریات پوری کر سکے۔