امریکہ‘ طالبان اور گھگھو گھوڑے

جس بچے کی تلاش تھی‘ آخر کار وہ مجھے مل گیا۔
یہ بچہ وہی تھا جس نے سب کے سامنے اونچی آواز میں کہا تھا کہ بادشاہ ننگا ہے۔ چند نوسربازوں نے احمق بادشاہ کو کہا تھا کہ وہ اس کے لیے دنیا کا بہترین لباس تیار کریں گے۔ انہوں نے بادشاہ سے اس سلسلے میں بھاری معاوضہ پیشگی وصول کر لیا۔ جب بادشاہ یہ ''لباس‘‘ پہن کر باہر نکلا تو خوشامدی درباریوں نے تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے مگر اس بچے نے کہہ دیا کہ بادشاہ ننگا ہے۔
میں ایک مدت سے اس بے خوف منہ پھٹ بچے کی تلاش میں تھا کہ اس سے وہ باتیں سنوں جو جانتے سب ہیں مگر خوف کی وجہ سے یا مفادات کی لالچ میں منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے ہیں۔ کئی ملکوں اور کئی شہروں میں اسے تلاش کیا۔ دوستوں سے پوچھا مگر کسی کو کچھ نہیں معلوم تھا! حسنِ اتفاق دیکھیے کہ کل قریبی پارک میں واک کر رہا تھا کہ وہ درختوں کے جھنڈ کے پاس کھیلتا نظر آیا۔ اس کے پاس مٹی کے گھگھو گھوڑے تھے جو اَب کمیاب ہیں۔ میں رُکا اور پوچھا کہ آج کل تو پلاسٹک کے جدید‘ ریموٹ کنٹرول کھلونے عام ہیں‘ تم ان صدیوں پرانے مٹی کے بنے گھگھو گھوڑوں سے کیوں کھیل رہے ہو؟ وہ ہنسا۔ کہنے لگا: جب ایسے کھلونے میرے اپنے ملک میں بننے لگیں گے تو ان سے بھی کھیل لوں گا۔ میں نے کہا: بادشاہ کے بارے میں کوئی اور سچ بھی بتاؤ۔ بچہ ہنسا۔ کہنے لگا: بادشاہ تو اب امریکہ ہے۔ اب وہ تخت و تاج والے پرانے زمانے کے حکمران نہیں رہے۔ آج کرۂ ارض کا بادشاہ امریکہ ہے۔ میں نے کہا: امریکہ‘ اسرائیل کا ساتھ دے کر فلسطینیوں کے ساتھ ظلم کر رہا ہے۔ اس پر بچے نے مجھے غور سے دیکھا۔کہنے لگا: تم بھی بادشاہ کے لباس کی تعریف کر رہے ہو۔ تمہیں کس نے بتایا ہے کہ امریکہ صرف اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔ اپنے گھر کی خبر لو! تمہارے ارد گرد بھی تو امریکہ کسی کی مدد کر رہا ہے اور بھرپور کر رہا ہے۔ میں نے کہا: بھارت کی مدد کر رہا ہے۔ بچے نے اس بار قہقہہ لگایا‘ کہنے لگا: میڈیا کے اس دور میں بھی تم پاکستانی بے خبر ہو! بے وقوفو! امریکہ طالبان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ پہلے تو جاتے ہوئے جدید ترین ہتھیار چھوڑ گیا جو طالبان کی حکومت نے ٹی ٹی پی کے حوالے کر دیے تاکہ وہ تم پر حملے کریں! اس کے بعد وہ جہازوں میں کیش بھر بھر کے طالبان کو ڈالر بھیج رہا ہے۔ میں نے تعجب کا اظہار کیا۔ بچہ کہنے لگا: لگتا ہے تم پاکستانی سوائے انڈین فلموں کے کچھ نہیں دیکھتے۔ ٹویٹر؍ ایکس اور ٹیسلا گاڑیوں کے مالک اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ امریکی حکومت اپنے عوام کے خون پسینے کی کمائی افغانستان بھیج رہی ہے جو طالبان کے پاس پہنچ رہی ہے۔ تمہیں شاید معلوم نہیں کہ ایلون مسک صدر ٹرمپ کی نئی حکومت میں Department of Government Efficiency کا سربراہ بنے گا۔ اس سے پہلے مشہور و معروف صحافی لارا لوگن نے حیرت کا اظہار کیا کہ ہر ہفتے ان دہشت گردوں کو امریکی عوام کے ٹیکسوں سے چار کروڑ ڈالر دیے جا رہے ہیں! کیا یہ پاگل پن نہیں؟ افغانستان کی تعمیر نو کے سپیشل انسپکٹر جنرل نے امریکی کانگریس کو رپورٹ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ امریکہ افغان ''عوام‘‘ کو امداد بھیجنے والوں میں سر فہرست ہے اور جب سے اپنی افواج نکالی ہیں‘ تب سے لے کر اب تک امریکہ افغانستان کو اکیس ارب ڈالر دے چکا ہے۔ امورِ خارجہ کی ہاؤس کمیٹی کے چیئرمین اور کانگریس کے رکن‘ مائیکل مک کال نے بھی اس غلط بخشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وارننگ دی ہے کہ انسانی بنیادوں پر دی جانے والی یہ امداد طالبان تک نہیں پہنچنی چاہیے۔ مائیکل مک کال پہلے بھی متنبہ کر چکا ہے کہ امریکہ‘ افغانستان کے مرکزی بینک کو جو کیش بھیج رہا ہے‘ وہ طالبان کے پاس ہی جا رہا ہے۔ بچہ یہ سب کچھ بتا رہا تھا اور میرا منہ حیرت سے کھلا ہوا تھا۔ بچہ ایک بار پھر ہنسا۔ کہنے لگا: اپنی ریاست کو اور اپنے عوام کو بتاؤ کہ ٹی ٹی پی کے پیچھے صرف طالبان ہی نہیں‘ امریکہ بھی ہے جو طالبان کو ہر ہفتے کروڑوں ڈالر دے رہا ہے۔ بچے سے میں نے وعدہ کیا کہ اپنی ریاست اور اپنے عوام کو جگانے کی بھرپور کوشش کروں گا!
میں امید کر رہا تھا کہ میرے اس سعادت مند وعدے کے بعد بچے کا رویہ کچھ نرم پڑے گا اور وہ طنز کرنا بند کر دے گا مگر یہ خیالِ خام تھا۔ بچہ کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں میں میرے لیے رحم بھی تھا اور حقارت بھی!! پھر وہ اپنے گھگھو گھوڑوں کو ایک لائن میں کھڑا کرنے لگ گیا۔ میرا دل دھک دھک کر رہا تھا کہ صدیوں سے مشہور چلا آتا یہ بچہ اب نہ جانے کیا کہہ دے! بچہ اچانک بولا کہ تم کیا بتاؤگے اپنے عوام کو اور اپنی ریاست کو! تمہارے عوام‘ تمہاری حکومت اور تمہاری ریاست! ہاہاہا! تم سب تو ان عناصر کی پرورش خود کر رہے ہو جو ٹی ٹی پی کی حفاظت کر رہے ہیں اور جن کی شہ پر ٹی ٹی پی تمہاری مسلح افواج پر دن رات حملے کر رہی ہے۔ میں نے بچے کو حیرت سے دیکھا اور کہا: کیا کہہ رہے ہو تم؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ بچہ ہنسا اور کہنے لگا کہ تم ایک پرانے پاکستانی ڈرامے کے اُس نسوانی کردار کی طرح ہو جو بار بار کہتی تھی ''ایک تو میں بھولی بہت ہوں‘ دوسرے میری عمر بہت کم ہے!‘‘ تم پاکستانی یا تو بھولے بہت ہو یا مست ملنگ ہو! کیا یہ حقیقت نہیں کہ طالبان حکومت کے وزرا اور عمائدین میں سے کچھ کے خاندان اب بھی پاکستان میں رہتے ہیں؟ ان کے بچے آج بھی یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ کوئٹہ‘ کراچی اور پشاور میں طالبان آج بھی اس طرح آتے ہیں جیسے یہ شہر ان کی کالونی ہوں؟ جیسے پاکستان‘ میرے منہ میں خاک‘ ان کی سلطنت کا حصہ ہو؟ ان کی جائدادیں پاکستان میں ہیں! لگتا ہے کہ پاکستان افغانستان سے ڈرتا ہے ورنہ اپنے اوپر حملے کرنے اور کرانے والوں کے خاندانوں کی پرورش کون کرتا ہے اور ان کی جائدادوں کی حفاظت کون کرتا ہے۔ کیا ٹرانزٹ ٹریڈ کی اجازت دے کر پاکستان ٹی ٹی پی کے سرپرستوں کی پرورش نہیں کر رہا؟ کیا سمگلنگ پر آنکھیں بند کر کے پاکستان ٹی ٹی پی کے محافظوں کی کفالت نہیں کر رہا؟ پاکستان کے متعلقہ ادارے چاہیں تو افغان بارڈر کے پار چڑیا بھی نہ جائے۔ آخر سمگلنگ کیوں نہیں روکی جا رہی؟ اگر افغانستان ہماری افواج پر حملے کرا رہا ہے‘ اگر ہمارے سولہ‘ سولہ جوان ایک ایک دن میں شہید ہو رہے ہیں تو افغانستان کی شہ رگ پر‘ جو پاکستان کے پاس ہے‘ پاؤں کیوں نہیں رکھا جا رہا؟ لاکھوں افغان پاکستان کے اندر کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ بچہ بولے جا رہا تھا۔ مجھے بھی غصہ آگیا۔ میں نے کہا کہ افغان غیرت مند ہیں تو پاکستان سے اپنے تیس‘ چالیس لاکھ شہری واپس کیوں نہیں بلا لیتے؟ بچے نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہا: اس لیے کہ وہ ہر حال میں تم پر اپنی مرضی مسلط کر تے ہیں! وہ چاہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے ذریعے تم پر حملے کریں اور تم ان کی خدمت‘ ان کی پرورش‘ ان کی کفالت‘ جاری رکھو! وہ تم سے اپنی خدمت ٹھسّے سے کرا رہے ہیں!! آہ! تم بے چارے پاکستانی کس قدر بے بس ہو! کتنے مجبور ہو! آہ! تم قابلِ رحم پاکستانی! تم بیچارے پاکستانی!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں