شرقِ اوسط کے حالیہ بحران میں کردوں کا ذکر کثرت سے ہوتا چلا آیا ہے‘ اس لیے لوگوں میں ان کے بارے میں آگہی کا احساس پیدا ہوا۔ کردوں کی کوئی قومی ریاست نہیں ہے‘ اس لیے یہ ترکیہ‘ ایران‘ شام‘ عراق اور دیگر خطوں جیسے لبنان‘ یمن‘ پاکستان‘ جرمنی‘ سوئٹزرلینڈ اور امریکہ میں اقلیت کی صورت میں رہتے ہیں۔ شرقِ اوسط اور ایشیا کوچک میں یہ عربوں اور ترکوں کے بعد تیسری بڑی قوم ہیں۔ یہ ترکیہ میں کل آبادی کا تقریباً 20 فیصد‘ ایران میں 31 فیصد‘ عراق میں 18 فیصد جبکہ شام میں پانچ فیصد ہیں۔ ترکیہ کے تقریباً 81 صوبوں میں سے 19 صوبوں میں ان کی اکثریت ہے۔ کرد زیادہ تر سنی شافعی ہیں لیکن ان میں اہلِ تشیع‘ یزدی‘ کمیونسٹ اور سیکولر‘ ہر طرح کے عقائد اور نظریات کے لوگ اقلیت میں موجود ہیں۔ یہ ایک سخت جان‘ بہادر‘ عزیمت و استقامت اور طویل تاریخ کی حامل قوم ہے۔ سطورِ ذیل میں ان کی تاریخ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔
کرد تین سو سال قبل مسیح سے ایران سے شام تک پھیلے ہوئے خطے میں آباد ہیں‘ اسے کردستان کہتے ہیں۔ کردوں کا ذکر عہد نامہ قدیم کے سفرِ تکوین میں بھی موجود ہے: طوفانِ نوح تھم جانے کے بعد پہلے صاحبِ شریعت اور اولوالعزم نبی حضرت نوح علیہ صلوٰۃ والسلام کی کشتی ارارات پہاڑ پر ٹھہری‘ یہ پہاڑ شمالی کردستان کے آخر میں واقع ہے اور کرد اس کو جبل آغری کا نام دیتے ہیں۔ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کے جودی پہاڑ پر ٹھہرنے کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اورحکم ہوا: اے زمین! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا‘ پانی (زمین میں) جذب ہو گیا اور معاملے کا فیصلہ ہو گیا اور کہا گیا: ظالموں کے لیے (رحمت سے) دوری ہے‘‘ (ھود: 44)۔ جودی پہاڑ جزیرہ ابن عمر کے قریب شمالی کردستان میں واقع ہے۔ اب یہ حصہ موجودہ ترکیہ کے جنوب میں ہے اور قدیم زمانے سے یہ کردوں کا وطن تھا۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ کردوں کے شہر اُن قدیم ترین خطوں میں سے ہیں جہاں انسانی معاشرت پروان چڑھی۔ عہد نامہ قدیم کے سفرِ تکوین (آیات: 7 تا 8) میں ہے: ''جنت عدن سے چار نہریں نکلتی ہیں : فَیْشُوْن‘ جَیْحُوْن‘ حِدَّاقِل (دِجلہ) اور فرات‘‘ اور دِجلہ و فرات کے منابع شمالی کردستان میں واقع ہیں‘ پس تورات کے جغرافیہ کے مطابق جنت عدن یہیں واقع تھی۔ امام طبری مجاہد سے نقل کرتے ہیں: جس شخص نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کیلئے ''انہیں جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو‘‘ (الانبیاء: 68) کہا تھا وہ کردوں میں سے تھا۔ اس کا نام حسن تھا۔ حافظ ابنِ کثیر دمشقی نے لکھا: اسی نے وہ منجنیق بنائی تھی جس کے ذریعے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا۔ رسول اللہﷺ کے صحابہ میں ابومیمون جابان کردی کا نام بھی آتا ہے۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے کئی احادیث کا سماع کیا۔ ہم ذیل میں بطور مثال دو حدیثیں پیش کر رہے ہیں:
حضرت ابو میمون جابان الکردیؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ کو متعدد مرتبہ حتیٰ کہ دس مرتبہ سنا کہ جس شخص نے کسی خاتون سے شادی کی اور اس کا ارادہ یہ تھا کہ وہ اس کو مہر نہیں دے گا تو کل قیامت میں وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ زانی (شمار) ہو گا‘‘ (معجم الاوسط: 1851)۔ (2) ''میں نے رسول اللہﷺکو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص شادی کرتا ہے اور عورت کا مہر کم ہو یا زیادہ‘ وہ اسے ادا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تو اس نے اس کے ساتھ دھوکا کیا اور اگر وہ اس کا حق ادا کیے بغیر مر گیا تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے زانی ہونے کی حالت میں ملے گا اور جس شخص نے بھی کسی سے اس ارادے کے ساتھ قرض لیا کہ وہ قرض ادا نہیں کرے گا اور قرض ادا کیے بغیر اس کا انتقال ہو گیا تو وہ اللہ سے قیامت کے دن چور کی حیثیت سے ملے گا‘‘ (الترغیب و الترہیب للمنذری: 2781)۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں تقریباً ساری کرد قوم مشرف بہ اسلام ہوئی‘ انہی کے دور میں عرب اور فارس کے کئی پیچیدہ معرکے‘ جیسے جلولا اور نہاوند جنوبی کردستان میں ہوئے۔ کردستان کا لفظ کردوں کے وطن کیلئے اسی طرح بولا جاتا ہے جیسے افغانیوں‘ ازبکوں اور تاجکوں کے وطنوں کیلئے بالترتیب افغانستان‘ ازبکستان اور تاجکستان بولا جاتا ہے کیونکہ کردستان ہزاروں سال سے کردوں کا وطن ہے۔ حکومتوں اور خلافت کے مراکز کے بدلنے کے ساتھ ساتھ کئی خطوں‘ مقامات اور سلطنتوں کے نام بھی بدل گئے لیکن قدیم زمانے سے لے کر اب تک کردستان کا یہی نام ہے۔ کردستان کا یہ نام چھٹی صدی ہجری کے دوران منظر عام پر آیا‘ جب یہاں سنجر بن ملک شاہ بن الپ ارسلان متوفیٰ 522ھ نے جاگیر بنائی۔ قبل ازیںاس خطے کو عراقِ عجمی کہا جاتا تھا۔ المسعودی کے مطابق اَکراد ربیعہ بن نزار بن مَعدّ بن عدنان کی اولاد سے ہیں‘ یہ قدیم زمانے میں الگ تھلگ ہو گئے اور انہوں نے پہاڑوں میں سکونت اختیار کر لی۔ بعض نے کہا: یہ مضر بن نزار کے بیٹے کرد بن مرد بن صعصہ بن ھوازن کی اولاد سے ہیں۔ بعض نے کہا: یہ ربیعہ اورمُضَر کی اولاد سے ہیں جنہوں نے خالص پانی اور عمدہ چراگاہوں کی خاطر ان خطوں میں رہائش اختیارکی۔ مقریزی نے کہا: کردوں کی نسبت کرد بن مرد بن عمرو بن صعصہ بن معاویہ بن بکر بن ھوازن سے ہے۔ معتمد ترین روایات یہی ہیں کہ کرد ربیعہ بن نزار کی اولاد سے ہیں اور یہی عرب مستعربہ ہیں جو حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کی اولاد سے ہیں۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق کردستان کا رقبہ 74 ہزار مربع میل‘ یعنی ایک لاکھ 91 ہزار 660 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور اس کے اہم ترین شہر دیار بکر اور وان (ترکیہ)‘ موصل‘ اربیل اور کرکوک (عراق) اور کرمانشاہ (ایران) ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے مطابق کردستان کا رقبہ ترکیہ میں ایک لاکھ 90 ہزار‘ ایران میں ایک لاکھ 25 ہزار‘ عراق میں 65 ہزار اور شام میں 12 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اس طرح کردستان کا کل رقبہ تین لاکھ 92 ہزار مربع کلو میٹر بنتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق اس علاقے میں چار کروڑ کرد باشندے رہائش پذیر ہیں۔ کردوں میں عظیم اہلِ علم و فضل ائمہ‘ علما اور فقہا گزرے ہیں۔ امام جلال الدین سیوطی نے اس خطے والوں کے متعلق فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے غیرت و حمیت کے دس حصے فرمائے‘ ان میں سے ایک حصہ سارے جہاں کے لوگوں کو عنایت فرمایا اور نو حصے کردوں کو عنایت فرمائے۔ ان میں انتہائی درجے کی شجاعت‘ حمیت اور مردانگی پائی جاتی ہے‘ اس لیے ان کے شہروں کو بہادروں اور باہمت لوگوں کے شہر کہا جاتا ہے‘‘۔ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کرد اور پہاڑ و اسلحہ لازم و ملزوم رہے ہیں۔ کرد اسلحے کا بہت زیادہ اہتمام و انصرام کرتے ہیں اور اس کو بے حد پسند کرتے ہیں۔ اسلحے کو نہ صرف اپنی قوت و شجاعت بلکہ اپنی ذات کا حصہ سمجھتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں کردوں میں مسیحیت و زرتشت کے افکار و نظریات بھی رائج رہے ہیں‘ بعد میں کرد مسلمان ہوئے۔ حضرت جابان کردیؓ کا رسول اللہﷺ کی بارگاہِ اقدس میں آنا اور آپﷺ کی زیارت سے مشرف ہونا کتب رجال میں منقول ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ پہلی مرتبہ حجاز میں نہیں آئے بلکہ ان کا حجاز میں آنا جانا رہتا تھا اور دوسرا یہ کہ اس وقت بھی کردستان کا خطہ معروف تھا۔ اسی وجہ سے انہیں کردی کہا گیا‘ جس طرح حضرت سلمانؓ کو فارسی کہا گیا ہے۔ تاریخ ابن خلدون میں حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں سلمہ بن قیس اشجعی کی قیادت میں کرد مشرکین کی طرف ایک لشکر کے بھیجے جانے کا بھی ذکر ہے جس نے کردوں کو شکست دی اور انہیں قیدی بنایا اور ان سے لیے ہوئے مالِ غنیمت کو تقسیم کیا۔ اسی طرح شاہ زور اور سمغان نامی شہروں میں حضرت عتبہؓ بن فرقد کی قیادت میں کردوں سے جنگ ہوئی اور اس جنگ میں کردوں کو شکست ہوئی تو انہوں نے جزیہ اور خراج دینے پر صلح کر لی۔ کردوں میں یہودی‘ مسیحی‘ صابی اور زرتشت بھی تھے۔ (جاری)