"IYC" (space) message & send to 7575

مارجن دینا پڑے گا!

آج کل حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کا سلسلہ چل رہا ہے بلکہ عروج پر ہے اور ہمیشہ کی طرح ہر شعبۂ معاشرت پر ویسا ہی نزع کا عالم طاری ہے جیسا ہمارے ملک میں ہر چھوٹے بڑے ایشو‘ ہر اُلٹے سیدھے معاملے پر طاری ہو جاتا ہے۔ مذاکرات کا جو سلسلہ عروج پر ہے‘ اسے دراصل دن میں کئی بار عروج ملتا ہے اور اتنی ہی بار زوال بھی نازل ہوتا ہے۔ بات کچھ بنتی نظر نہیں آتی۔ وجہ ایک ہی ہے کہ کئی دنوں (اب تو کئی ہفتے ہو چکے ہیں) سے یہ سننے میں آ رہا تھا کہ حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات کرنے جا رہی ہیں‘ لیکن فریقین میں سے کسی نے بھی اس دوران بات چیت کی پوری طرح تیاری نہیں کی تھی۔ اب بھی جبکہ سلسلۂ جنبانی شروع ہو چکا ہے‘ فریقین کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ وہ مذاکرات کے لیے مخلص نہیں ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چودھری نے کہا ہے کہ حکومتی رویہ غیرسنجیدگی کا عکاس ہے۔ حکومت کی جانب سے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اب یہ خبر آئی ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے اداروں کے خلاف بیانات نہ دینے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے جبکہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ بانی نے پی ٹی آئی کے دونوں مطالبات تحریری طور پر حکومت کی کمیٹی کو دینے کی اجازت دے دی ہے‘ تاہم انہوں نے بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے کہا کہ اگر اس کے بعد مذاکراتی ٹیم کی ملاقات نہ کروائی گئی تو مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ پی ٹی آئی نے لچک کا مظاہرہ کیا‘ اسی طرح کا مارجن حکومت کو بھی دینا چاہیے‘ تبھی مذاکرات کی کامیابی کی کوئی راہ نکل سکے گی‘ بصورتِ دیگر نتیجہ‘ بصورتِ دیگر ہی نکلے گا۔
کہا یہ جاتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں مذاکرات کے حوالے سے دباؤ کا شکار ہیں‘ خصوصاً پی ٹی آئی۔ یہ دباؤ کیا ہے؟ اس بارے میں مختلف آرا پیش کی جاتی ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ حکومت کو معاملاتِ اقتدار چلانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ معیشت ٹھیک نہیں‘ غیر ملکی قرضے تیزی سے بڑھ رہے ہیں جس کا اندازہ نومبر 2024ء میں سامنے آنے والی اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ملک پر قرضے اور واجبات ریکارڈ 85 ہزار 836 ارب روپے پر پہنچ گئے‘ اور ایک سال میں قرضوں اور واجبات میں 7417 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان کا قرضوں اور واجبات پر انحصار مزید بڑھ گیا۔ دستاویز کے مطابق ستمبر 2023ء تک ملک پر قرضوں اور واجبات کا حجم 78 ہزار 419 ارب روپے تھا جو ستمبر 2024ء تک بڑھ کر 85 ہزار 836 ارب روپے ہو گیا۔ علاوہ ازیں مہنگائی میں حقیقی اور خاطر خواہ کمی نہیں لائی جا سکی۔ حکومت اور اس کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین اختلافات بھی شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ میں ایک نئی انتظامیہ برسر اقتدار آنے والی ہے اور نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کابینہ کے لیے جن لوگوں کا انتخاب کیا ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جارحانہ پالیسی اپنانے کے خواہش مند ہیں۔ ان کی ٹیم کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کے حق میں ابھی سے بیانات آنا شروع ہو چکے ہیں۔ مبینہ طور پر حکومت پر یہی دباؤ ہے جس کی وجہ سے اس نے مذاکرات کی طرف رجوع کیا۔
پی ٹی آئی کی بات کی جائے تو اس کے بھی اپنے کچھ مطالبات‘ اور تحفظات ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ پی ٹی آئی جس طرح کی سیاست کر رہی ہے‘ وہ ملک میں بے یقینی بڑھانے کا باعث بن رہی ہے جو جاری جمہوریت کے لیے مناسب نہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی جانب سے غیرجمہوری قوتوں پر جو انحصار بڑھایا جا رہا تھا‘ وہ شاید باقی نہیں رہا۔ کچھ عرصہ پہلے بانی پی ٹی آئی نے کہا بھی تھا کہ وہ اب کبھی غیرسیاسی قوتوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔ دوسری جانب فیض حمید پر فردِ جرم عائد ہونے کے بعد غالباً پی ٹی آئی والے کچھ دباؤ محسوس کر رہے ہیں کہ کہیں ان کو بھی اس ساری تحقیقات کا حصہ نہ بنا لیا جائے۔ مبینہ طور پر یہی دباؤ پی ٹی آئی کو مذاکرات کی طرف لے کر آیا ہے۔ فریقین دباؤ کی وجہ سے مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیں یا اپنی یا قومی ضروریات کو پیشِ نظر رکھ کر‘ خوشی کی بات یہ ہے کہ دونوں مذاکرات کے لیے آمادہ و تیار ہیں۔
حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کی طرف آنے کے پس منظر میں کیا وجوہ کارفرما ہیں‘ ان سے قطع نظر میری خواہش یہ ہے کہ جو مذاکرات ہو رہے ہیں‘ وہ کامیاب ہوں کیونکہ ان کی کامیابی سے ہی آگے بڑھنے کے راستے نکلیں گے‘ کچھ سیاسی امن قائم ہو گا اور مجموعی سطح پر اقتصادی ترقی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ممکن ہو سکے گا۔ ابھی آج ہی پاکستان سٹاک ایکسچینج کراچی میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے تمام تجربہ کار لوگوں کے مشورے درکار ہوں گے‘ ٹیکس کے حوالے سے معاملات روز روشن کی طرح عیاں ہیں‘ ہمارے ٹیکس سلیب کاروبار کو نہیں چلنے دیں گے اور سرمایہ کاری کو فروغ نہیں دیں گے لیکن ہم آئی ایم ایف پروگرام کے مرحلے میں ہیں‘ ہمیں ان کی شرائط کو پورا کرنا ہے‘ وقت آنے پر اس پروگرام سے چھٹکارا حاصل کریں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف اس سے پہلے کئی بار میثاقِ معیشت کی پیشکش کر چکے ہیں۔ میرے خیال میں میثاقِ معیشت اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز میں زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا ہو گی اور حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین جو مذاکرات ہو رہے ہیں‘ وہ ایسے کسی اتفاقِ رائے کی طرف بڑھنے کے سلسلے کی پہلی کڑی ثابت ہو سکتے ہیں‘ بشرطیکہ یہ کامیابی سے ہمکنار ہوں۔
اللہ کرے کہ جو مذاکرات ہو رہے ہیں‘ کامیابی سے ہمکنار ہوں‘ لیکن ایسا از خود ممکن نہیں ہو سکتا۔ بات چیت کے اس سلسلے کو کامیاب بنانے کے لیے حکومت اور پی ٹی آئی‘ دونوں کو ایک دوسرے کو مارجن دینا پڑے گا۔ مذاکرات‘ مطالبات‘ صلاح مشورے اور برین سٹارمنگ اپنی جگہ اہمیت و افادیت کے حامل عوامل ہیں‘ لیکن یہ طے ہے کہ بریک تھرو اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک مذاکرات کی میز پر بیٹھے صلاح کار ایک دوسرے کو مارجن دینے کو تیار نہیں ہوں گے۔ اس لیے فریقین کو لچک کا مظاہرہ کرنا پڑے گا‘ ایک دوسرے کے مطالبات کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ تھوڑا سا مارجن دینا بعض اوقات بڑے حاصلات کا سبب بھی بن جایا کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ جاری مذاکرات کی کامیابی بھی بڑے مقاصد پورے کرنے کا پیش خیمہ بن جائے۔ یہ حکومت اور پی ٹی آئی پر ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کتنا مارجن دیتی ہیں۔ اگر دونوں ملک اور قوم کے کاز سے مخلص ہیں تو پھر ایک دوسرے کو مارجن دینا ہی پڑے گا۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں