"KNC" (space) message & send to 7575

تبدیلی کیسے آئے گی؟

تبدیلی کی خواہش فطری ہے‘ اگر حالات اس کے متقاضی ہوں۔ اگر یہ خواہش ایک قابلِ ذکر طبقے میں پیدا ہو جائے تو پورے معاشرے کو مضطرب کر سکتی ہے۔ تبدیلی ہمیشہ سماجی عوامل کے تابع ہوتی ہے۔ یہ اگر سازگار نہ ہوں تو تبدیلی کے لیے لازم ہے کہ انہیں سازگار بنایا جائے۔ بصورتِ دیگر ایسی خواہشا ت سرِ راہ دم توڑ دیتی ہیں اور کبھی منزل کا سراغ نہیں ملتا۔ پھر عمرِ رائیگاں کے ماتم کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔
اس باب میں ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ سیاسی قیادت کی تبدیلی سے معاشرہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں۔ میں لیکن اس وقت اس مقدمے سے دانستہ صرفِ نظر کرتے ہوئے‘ صرف اس سوال کو زیرِ بحث لا رہا ہوں کہ آج پاکستان میں سیاسی تبدیلی کیسے آ سکتی ہے؟ سیاسی تبدیلی کا مطلب ہے اقتدار کی مسند پر بیٹھے لوگوں کو اٹھا کر‘ کسی اور کو یہاں بٹھا دیا جائے۔ یہ کیسے ہو گا؟ اس کی دو ممکنہ صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ برسرِ اقتدار گروہ رضاکارانہ طور پر مسندِ اقتدار چھوڑنے پر تیار ہو جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اسے اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا جائے۔
پہلی صورت کا تو کوئی امکان نہیں۔ برسرِ اقتدار گروہ کا ایک بیانیہ ہے اور اسے عوام کے ایک طبقے کی تائید بھی میسر ہے۔ اس کے ساتھ بالفعل اس کی حکومت قائم ہے۔ یہ اس کی طاقت ہے اور وہ اس کی بنیاد پر اقتدار میں رہنا چاہتا ہے۔ یہاں یہ بحث بے معنی ہے کہ برسرِ اقتدار گروہ اس کا اخلاقی جواز رکھتا ہے یا نہیں۔ اسے امرِ واقع کے طور پر قبول کرتے ہوئے حکمتِ عملی طے کرنا ہو گی۔ جب وہ رضا کارانہ طور پر اقتدار سے الگ نہیں ہو رہا تو پھر دوسری صورت ہی باقی ہے اور وہ یہ کہ اسے اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا جائے۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اس نظامِ حکومت کو معطل کر دیا جائے۔ اس کی اقتصادی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ اس کے اداروں کو غیر مؤثر بنا دیا جائے۔ صوبائی حکومتیں مرکز کی اطاعت سے انکار کر دیں۔ آخری اقدام کے طور پر عوام کی ایک بڑی تعداد گھروں سے نکلے اور دارا لحکومت میں جمع ہو کر اسے عملاً مفلوج کر دے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک گروہ ہتھیار اٹھا لے۔ قومی سلامتی کے اداروں اور عوام کو اپنے ہتھیاروں کا نشانہ بنائے۔ معاشرے میں قتل وغارت گری ہو اور پھر وہ دارالحکومت پر قابض ہو جائے۔
اس وقت پاکستان میں تبدیلی کی علمبردار قوتیں ان دونوں صورتوں پر کام کر رہی ہیں۔ دوسری صورت پر ہم فی الحال گفتگو نہیں کرتے۔ اس پر بہت بات ہو چکی اور اب کم و بیش اجماع ہو چکا کہ اس کا نتیجہ سوائے ہلاکت کے کچھ نہیں۔ ہم اس نتیجے تک اس وجہ سے نہیں پہنچے کہ اس گروہ کا نقطہ نظر غلط ہے۔ ہم نے یہ نتیجہ اس لیے نکالا کہ اس حکمتِ عملی میں خلا ہے۔ مسلح تصادم میں خون بہتا ہے اور نتیجے میں بہت سی انسانی جانیں اس کی نذر ہو جاتی ہیں۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ریاست جب مزاحم ہو گی تو وہی غالب آئے گی کہ اس کے پاس اسلحہ بھی زیادہ ہے اور تربیت یافتہ فوج بھی ہے۔
پہلی صورت غیر آئینی ہے۔ کسی کے نزدیک اس کا اگر اخلاقی جواز ہو‘ تو بھی آئین میں اس کی گنجائش نہیں۔ عدالت کبھی کس کو ایسے احتجاج کی اجازت نہیں دے سکتی اور نہ اس نے آج تک دی ہے۔ اس سارے معاملے میں حکومت اور ریاست کا فرق ہے جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ عدالت حکومت کے خلاف ایک فیصلہ دے سکتی ہے‘ ریاست کے خلاف نہیں۔ سول نافرمانی ریاست کے خلاف اقدام ہے۔ ٹیکس ریاست کو دیا جاتا ہے حکومت کو نہیں۔ آئینی طور پر ٹیکس کی ادائیگی سے انکار جرم ہے۔ اسی طرح قانون سرکاری مشینری کو مفلوج کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ اس لیے ایک آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے پہلی صورت بھی قابلِ عمل نہیں۔ ایک نظامِ اجتماعی کے ہوتے ہوئے‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اسے اکھاڑ پھینکنا چاہے اور وہ مزاحمت نہ کرے۔ جب مزاحمت ہو گی تو اس کے نتیجے میں خون بہے گا۔ عام طور پر ایسی صورت میں ریاست ہی غالب رہتی ہے۔
یہ انقلابی جدوجہدکی حکمتِ عملی ہے جو کسی آئینی دائرے کی پابند نہیں۔ انقلاب تو آتا ہی موجود نظام کو برباد کرنے کے لیے ہے۔ اس کے لیے پہلا مرحلہ انارکی ہے۔ انارکی یہ ہے کہ حکومتی نظم مفلوج ہو جائے۔ اگر پاکستان میں انارکی آتی ہے تو بین الا قوامی قوتیں بلاتاخیر مداخلت کریں گی کیونکہ ایک نیوکلیئر قوت کو دنیا ایک دن کے لیے بھی کسی نظم کے بغیر نہیں رہنے دے گی۔ بالخصوص جب مسلح گروہ بھی ملک میں موجود ہوں اور نظمِ حکومت کے درپے ہوں۔
کیا ان نتائج سے بچتے ہوئے بھی تبدیلی کا کوئی لائحہ عمل اختیار کیا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب اثبات میں ہے۔ یہ آئینی حدود میں سیاسی جدوجہد ہے۔ اگر کوئی اس سیاسی نظم کو تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ ریاستی و حکومتی جبر کو صبر کے ساتھ براشت کرنا اور رائے عامہ کو ہم نوا بنانا ہے۔ آج ریاستی جبر ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ جیلوں میں جو سہولتیں آج میسر ہیں‘ ماضی میں نہیں تھیں۔ آج اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کو گرفتار کر لیا جائے۔ اگر اس سے بڑھ کر کچھ ہو‘ تو بھی صبر سے بہتر حکمتِ عملی کوئی نہیں۔
اس جدوجہد کا دورانیہ تین‘ ساڑھے تین برس سے زیادہ نہیں ہوگا کیونکہ اس کے بعد الیکشن لازم ہو جائیں گے۔ اگر عوام تبدیلی کے حق میں ہیں تو الیکشن سے تبدیلی آ جائے گی۔ تین سال زیادہ نہیں ہیں۔ یہ تو تبدیلی کے خواہش مندوں کیلئے کسی خوشخبری سے کم نہیں‘ اگر انسانی جان اور مال کو خطرات میں ڈالے بغیر‘ محض تین سال میں تبدیلی ممکن ہو جائے۔ وہ اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ تبدیلی کی جدوجہد خلا میں نہیں ہو گی۔ وہ کسی نظام میں رہتے ہوئے ہو گی۔ ایک نظام کو جب آپ اکھاڑنے کی کوشش کریں گے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ مزاحم نہ ہو؟ یہ سیاسی قیادت کی حکمت کا امتحان ہے کہ وہ انسانی جان و مال کو محفوظ بناتے ہوئے‘ تبدیلی کو ممکن بنائے۔ ہاں‘ اگر آپ انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں تو پھردوسری بات ہے۔ پھر گفتگو آئین کے دائرے میں نہیں ہو گی کہ انقلاب کسی آئین کا پابند نہیں ہوتا۔ اس بارے میں سوچتے ہوئے اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ دنیا میں انقلاب کا دور ختم ہو گیا۔ جمہوریت میں صرف پُرامن جدوجہد ہی کا راستہ کھلا ہے۔
آج تبدیلی کے علمبرداروں کے لیے صرف ایک ممکنہ راستہ ہے۔ وہ اگلے انتخابات کا انتظار کریں۔ انہیں شفاف بنانے کے لیے حکومت سے معاملہ کریں۔ اس دوران میں رائے عامہ کو اپنے حق میں بیدار کریں۔ اگر وہ یہ کام سچ بول کر کریں گے تو ان کی اخلاقی قوت میں اضافہ ہوگا۔ بصورتِ دیگر بھی یہی راستہ ہے۔ اس کے علاوہ جو راستہ اختیار کیا جائے گا‘ اس کا انجام بخیر نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ الیکشن سے بھی صرف یہ ہوگا کہ کسی کے لیے غیر پسندیدہ لوگ مسندِ اقتدار سے اتر جائیں اور ان کی پسند کے لوگ اسے سنبھال لیں۔ پُرامن سیاسی تبدیلی سے یہ ضرور ہوگا کہ سماجی سطح پر مزید انتشار پیدا نہیں ہو گا۔ رہی سماجی تبدیلی‘ تو وہ سیاسی تبدیلی سے پہلے کبھی آئی ہے اور نہ اب آئے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں