اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

میثاقِ معیشت کی اہمیت

وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر معاشی ترقی کے لیے سب کے ساتھ مل بیٹھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ گزشتہ روز کراچی سٹاک ایکسچینج میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہے‘ معاشی ترقی کے لیے سب کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہوں۔ ملکی سیاست میں2018ء سے معاشی پالیسیوں کے تسلسل اور ترقی کے لیے سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت اور میثاقِ معیشت کی گونج سنائی دے رہی ہے مگر ان چھ‘ سات سال میں اس جانب کوئی عملی پیشرفت نہیں ہو سکی‘ حالانکہ اس تجویز پر عملدرآمد ہو جاتا تو آج ملک کا سیاسی اور معاشی منظر نامہ بڑی حد تک مختلف ہو تا۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات میں سیاسی انتشار کا کردار مرکزی ہے۔ سیاسی طور پر استحکام پیدا ہوا تو معاشی نمو کے امکانات بڑھ گئے اور سیاسی انتشار بڑھا تو تمام سفر رائیگاں چلا گیا۔ پچھلے تین‘ چار برس سے جو صورتحال ہے اس میں معیشت مسلسل جمود کی کیفیت میں ہے۔ پاکستان لگ بھگ 25 کروڑ آبادی کا ملک ہے‘ جس کے پاس بے پناہ قدرتی وافرادی وسائل ہیں مگر معاشی نمو کی شرح‘ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ایک فیصد سے بھی کم رہی۔ گزشتہ برس 3.5 فیصد ہدف کے مقابلے میں یہ 2.5 فیصد رہی اور رواں مالی سال کے لیے 3.6 فیصد ہدف مقرر ہے۔ یہ حالات پاکستان جیسے ملک کے لیے لمحہ فکریہ ہیں کیونکہ اپنے محل وقوع اور دیگر کئی حوالوں سے پاکستان کے پاس تیز رفتار ترقی کے سبھی لوازم موجود ہیں مگر حالات یہ ہیں کہ ہماری ساری سعی دیوالیہ پن سے بچتے ہوئے بمشکل معاشی توازن برقرار رکھنے تک محدودہے۔ گزشتہ تین‘ چار سال میں سیاسی عدم استحکام معیشت کے لیے عمل انگیز ثابت ہوا ہے اور ان حالات نے یہ باور کرایا ہے کہ معاشی استحکام وترقی کا راستہ سیاسی استحکام سے ہو کر گزرتا ہے۔ پائیدار ترقی کی بنیاد پالیسیوں کا تسلسل اور دوررس منصوبہ بندی ہوتی ہے‘ جو معاشی استحکام کے بغیر ممکن نہیں‘ یا کم از کم اتنا ضرور ہو کہ حکومت کی تبدیلی معاشی پالیسیوں پر اثر انداز نہ ہو۔ ہمارے ہاں کم و بیش ہر حکومت کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ماضی کی جاری پالیسیوں کو تبدیل کر کے نیا معاشی ویژن متعارف کرایا جائے۔ اس سے کچھ سیاسی فائدہ تو ہو سکتا ہے مگر معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ ایک پودا بھی زمین میں جڑ پکڑنے اور نمو میں کچھ وقت لیتا ہے‘ کجا معاشی پالیسیاں‘ جنہیں بسا اوقات بار آور ہونے کے لیے عشرے درکار ہوتے ہیں۔ ایسے میں پانچ سالہ مدت کے لیے بننے والی حکومت‘ جسے اپنے مستقبل کا بھی پختہ یقین نہ ہو‘ طویل المدت اور دور رس منصوبہ بندی کیسے کر سکتی ہے؟ ان حالات میں میثاقِ معیشت ہی ایسی قابلِ عمل چوائس ہے جو معاشی استحکام کی راہ ہموار کر سکتی اور ترقی کے لیے مہمیز فراہم کر سکتی ہے۔ میثاقِ معیشت معاشی ہم آہنگی کے علاوہ سیاسی ہم آہنگی کے فروغ میں بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔ جب سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر ملک کا معاشی روڈ میپ تیار کریں گی تو ان میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کا جذبہ پروان چڑھے گا۔ معاشی ترقی کسی حکومت کے سیاسی مفادات سے زیادہ ملک کے مستقبل کا تقاضا ہے اور معیشت کی مضبوطی تمام سیاسی جماعتوں کے منشور کا بنیادی ستون ہے‘ اس حوالے سے طریقہ کار میں تو اختلاف ہو سکتا ہے مگر سبھی جماعتیں ملک کو معاشی طور پر پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہیں؛ چنانچہ سیاسی قوتوں کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم معیشت کو مشترکہ ترجیح بنا کر اس میں بہتری کے امکانات پر اتفاقِ رائے کریں اور اس ضمن میں بلامشروط تعاون سامنے آنا چاہیے۔ میثاقِ معیشت کی گردان بہت ہو چکی‘ معاشی پالیسیوں اور منصوبوں میں تسلسل کے اس خاکے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے اب ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں