کفایت شعاری کا عزم
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے وفاق کے اداروں اور ذیلی وزارتوں میں ڈیڑھ لاکھ اسامیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے‘ جس کا مقصد حکومت کے اخراجات میں کمی بتایا گیا ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق وفاقی وزارتوں اور اداروں میں ایسی خالی اسامیاں جن پر ابھی بھرتیاں نہیں ہوئیں‘ ان میں سے 60 فیصد کو ختم کر دیا گیا ہے۔43 وفاقی وزارتوں اور ان کے 80 ذیلی اداروں‘ جن کی مد میں وفاقی حکومت کا خرچہ 900 ارب روپے تھا‘ ان میں سے کچھ اداروں کو ضم اور کچھ کو ختم کر کے اداروں کی تعداد 40کر دی گئی ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق رائٹ سائزنگ کا کام بتدریج کیا جا رہا ہے اور رواں سال جون تک یہ کام مکمل کر لیا جائے گا۔ ہمارے ملک میں سرکاری محکموں کی تعداد‘ اداروں کی نفری اور محکموں کی کارکردگی میں خاصا فرق پایا جاتا ہے۔ بعض امور جو اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہو چکے‘ ان کے محکمے وفاقی سطح پر بھی موجود ہیں‘ جبکہ محکموں میں غیر ضروری اور سیاسی بھرتیاں‘ان تمام عوامل کی بنا پر حکومتی اخراجات کا بوجھ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ چنانچہ ضرورت تھی کہ سرکاری محکموں کی چھانٹی کی جائے اور ایسے محکمے جن کی ضرورت باقی نہیں‘ انہیں ختم کیا جائے اور وہ محکمے جنہیں ضم کیا جا سکتا ہے انہیں ضم کر دیا جائے۔ پی ڈی ایم دورِ حکومت میں بھی وزیراعظم شہباز شریف نے ناصر محمود کھوسہ کی سربراہی میں پندرہ رکنی کفایت شعاری کمیٹی تشکیل دی تھی‘ جس نے جنوری 2023ء میں خزانے کا بوجھ کم کرنے کیلئے متعدد سفارشات حکومت کو ارسال کیں جن میں اداروں کا انضمام اور غیر ضروری اداروں کا خاتمہ اورگریڈ ایک سے گریڈ 16 تک کی خالی پڑی 70 ہزار پوسٹیں ختم کرنے سمیت مختلف محکموں کے اخراجات کم کرنے کی سفارش کی تھی۔ان اقدامات سے ایک ہزار ارب روپے کی بچت کا تخمینہ لگایا گیا تھا لیکن ان سفارشات پر عملدرآمد کے بجائے کفایت شعاری‘ رائٹ سائزنگ اور حکومتی اخراجات میں کمی کیلئے تین نئی کمیٹیاں بنا دی گئیں۔ اگست 24ء میں ایک رکن کے مختلف الزامات لگا کر ان کمیٹیوں سے مستعفی ہونے‘ رواں مالی سال کے بجٹ میں ایوانِ صدر کے بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت ایک ارب 11کروڑ 23لاکھ روپے جبکہ وزیراعظم ہائوس اور پبلک سیکرٹریٹ کے بجٹ میں 31کروڑ 32لاکھ روپے سے زائد کے اضافے اور ستمبر 2024ء میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں مالی سال 2023ء کے دوران وزیراعظم آفس کو آپریشنل اخراجات میں کفایت شعاری پالیسی سے انحراف کا ذمہ دار قرار دینے سے کفایت شعاری اور رائٹ سائزنگ سے متعلق حکومتی عزم پر سوالات کھڑے ہوئے‘ مگر اب حکومت نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ اسامیاں ختم کر کے اس ضمن میں اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔ رائٹ سائزنگ آج کی دنیا کا ناگزیر تقاضا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے افرادی قوت اور دفاتر کی ضرورت کو کافی حد تک گھٹا دیا ہے۔ جو کام چند دہائیاں قبل کئی افراد کرتے تھے‘ آج کمپیوٹر کے ایک کلک سے ہو سکتا ہے جبکہ بہت سے امور اب ڈیجیٹل صورت اختیار کر چکے ہیں‘ جس نے کام کی نوعیت کو تبدیل کر دیا ہے۔ اس جدت کو اپنانا وقت کا تقاضا ہے؛ چنانچہ محکموں اور اداروں کے حجم اور طریقہ کار میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ تاہم سادگی اور کفایت شعاری کا ڈنڈا اگر صرف نچلے ملازمین پر ہی چلتا رہے اور حکومتی اخراجات بڑھتے رہیں‘ آئے دن اعلیٰ گریڈز اور کابینہ کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا جائے‘ نئی گاڑیاں خریدی جائیں تو اس سے کفایت شعاری پر عمل نہیں ہو سکتا۔ اعلیٰ سرکاری ملازمین کی مراعات‘ جن میں مفت بجلی‘ پٹرول‘ گیس‘ گاڑی اور ملازمین وغیرہ کی سہولتیں شامل ہیں‘ پر بھی نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ حکومتی اخراجات میں حقیقی کمی اس وقت ہو گی جب خسارے کے ان تمام شگافوں کو پُر کیا جائے جو قومی وسائل کے ضیاع کا سبب ہیں۔