دہشت گردی اور گورننس کا فقدان
بنوں میں سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں 12 جوانوں کی شہادت کے سانحہ نے پوری قوم کو شدید غمزدہ کر دیا ہے۔ ضربِ عضب اور رد الفساد جیسے جامع آپریشنوں اور محدود پیمانے پر جاری رہنے والی کارروائیوں کے بعد ایسی کارروائیوں کا سلسلہ تقریباً بند ہوگیا تھا اور 2016-17ء کے بعد دہشت گردی کے واقعات لگ بھگ ختم ہو گئے تھے مگر اگست 2021ء میں افغانستان میں طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر دیکھی گئی‘ جس میں حالیہ عرصے میں خاصی تیزی آئی ہے۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان کے ساتھ یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر اٹھایا جا رہا ہے مگر افغان عبوری حکومت اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ دہشت گردانہ کارروائیوں میں افغان سرزمین کا استعمال ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے ۔طالبان کا یہ اقدام دوحہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں ان کی جانب سے یقین دلایا گیا تھا کہ وہ افغانستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ نہیں بننے دیں گے۔ اس تشویشناک مسئلے کو جہاں مغربی ہمسایہ ملک کے ساتھ دوبارہ اٹھانے کی ضرورت ہے وہیں داخلی حکمتِ عملی کا بھی ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ دو ستمبر کووزارتِ داخلہ کی جانب سے قومی اسمبلی میں بتایا گیا کہ گزشتہ دو برس کے دوران دہشت گردی کے 2075 واقعات ہو چکے ہیں جن میں 3758 افراد جاں بحق ہوئے۔ اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد انٹیلی جنس بیسڈ سکیورٹی آپریشنوں میں بھی تیزی لائی گئی اور روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردوں کے خلاف اوسطاً 130 سے زائد آپریشنز کیے جا رہے ہیں مگراتنی بڑی تعداد میں کارروائیوں کے باوجود دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جو خاصا تشویشناک ہے اور بادی النظر میں آپریشنل حکمت عملی پر نظر ثانی کی ضرورت کو واضح کرتا ہے۔یہ جائزہ لینا ہو گا کہ اس ضمن میں کامیابی نہ ملنے کی کیا وجوہ ہیں‘اور ان اسباب کا گہرائی اور جامعیت کے ساتھ تجزیہ کرکے حالات کے تقاضوں کے مطابق نئی حکمت عملی وضع کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا محض عسکری طاقت سے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے؟ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر منگل کے روز اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں واضح کر چکے ہیں کہ آرمی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے گورننس میں موجود خامیوں کو روزانہ کی بنیاد پر اپنے شہیدوں کی قربانی سے پورا کر رہے ہیں۔ یہ بیان انتظامی اور حکومتی خامیوں کی جانب توجہ دلاتا ہے اور صوبائی حکومتوں کو سکیورٹی اور دیگر معاملات میں اپنا فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے شکار علاقے پسماندگی اور جہالت میں بھی سرفہرست ہیں۔ پسماندگی اور جہالت کا خاتمہ عسکری آپریشن سے نہیں مقامی و صوبائی حکومتوں کی کاوشوں ہی سے ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت وفاق اور صوبوں‘ بالخصوص خیبر پختونخوا اور وفاق میں ورکنگ ریلیشن شپ کا شدید فقدان ہے اور یہ ماننا ہو گا کہ سیاسی انتشار دہشت گردی کے عفریت کو پھیلنے کیلئے موافق ماحول فراہم کر رہا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت دسمبر 2014ء کی طرح دوبارہ مل بیٹھے اور جس طرح سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں دہشت گردی اور اس کی سہولت کاری کے خاتمے کیلئے ایک واضح اور ہمہ جہت پالیسی تیار کی گئی تھی‘ اب بھی وسیع تر مشاورت کے ذریعے درپیش چیلنج سے نمٹنے کیلئے نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔ دہشتگردی کے اس عفریت کے خلاف اسی وقت کامیابی مل سکتی ہے جب پوری قوم یکسو ہو کر اس کا مقابلہ کرے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا یہ کہنا بجا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر پاکستانی سپاہی ہے اور ہم سب نے مل کر دہشت گردی کے ناسور سے لڑنا ہے۔