اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

ڈیجیٹل سکیورٹی اور ریاستی ذمہ داری

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کراچی میں تاجر برادری سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے روشن اور مستحکم مستقبل پر غیرمتزلزل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ملکی ترقی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایک سال قبل پیدا ہونے والے مایوسی کے بادل اب چھٹ چکے ہیں‘ تمام اہم معاشی اشاریے اب مثبت ہیں اور آنے والے سال میں مزید بہتری کی اُمید ہے۔ اس موقع پر آرمی چیف نے ایک اہم مسئلے ‘ملک کی ڈیجیٹل سرحدوں کی حفاظت اور عوام کی ڈیجیٹل سکیورٹی پر بات کرتے ہوئے اسے ریاست کی ذمہ داری قرار دیا۔ ڈیجیٹل سکیورٹی ایک اہم مسئلہ اور ایک ابھرتا ہوا چیلنج ہے۔ ایک عالمی سائبر سکیورٹی کمپنی کی رپورٹ کے مطابق رواں برس جنوری سے اکتوبر تک ملک میں مالیاتی شعبے میں سائبر حملوں میں 114 فیصد جبکہ جاسوسی کی غرض سے کیے گئے سائبر حملوں میں 63 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مالیاتی شعبے کے علاوہ سرکاری ادارے‘ آئی ٹی اور صنعتی کمپنیاں بھی سائبر حملوں کی زد میں ہیں۔ سائبر سکیورٹی کے ناقص انتظام کی وجہ سے ماضی میں وزیراعظم اور وفاقی وزرا کی ٹیلی فونک گفتگو‘ یہاں تک کہ وزیراعظم ہاؤس کے اجلاسوں کی مبینہ آڈیوز بھی لیک ہو چکی ہیں۔ یہ سائبر حملے اس امر کی دلیل ہیں کہ سردست سائبر سکیورٹی کے انتظامات ناکافی ہیں اور فی زمانہ سکیورٹی کے اس اہم پہلو کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اگست 2021ء میں‘ جب ملک میں پہلی سائبر سکیورٹی پالیسی کی منظوری دی گئی تھی تو اسے کافی سراہا گیا تھا اور گورننس‘ ٹیکنالوجی‘ ہیومن ریسورس اور سائبر سکیورٹی کی آگاہی کے حوالے سے اس پالیسی سے بڑی توقعات وابستہ کی گئیں؛ تاہم تین برس سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد اس حوالے سے عملاً کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ رواں برس مئی میں شہریوں کی سائبر سپیس کو محفوظ بنانے کیلئے نیشنل سائبر کرائم اینڈ انویسٹی گیشن ایجنسی قائم کی گئی تھی لیکن مستقل ڈی جی‘ افرادی قوت‘ تھانوں اور عدالتوں کا قیام نہ ہونے کے باعث گزشتہ ماہ ایجنسی کے قوانین منسوخ کرتے ہوئے اس کے اختیارات دوبارہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم وِنگ کو منتقل کر دیے گئے۔اسی طرف گزشتہ برس دسمبر میں نگران وفاقی کابینہ نے پہلی سائبر سپیس پالیسی بھی منظور کی تھی تاہم گزشتہ تقریباً ایک برس میں سائبر سکیورٹی میں عملاً کیا پیشرفت ہوئی اور عالمی درجہ بندی میں کتنی بہتری آئی‘ یہ بدستور ایک سوال ہے۔ موجودہ دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ سائبر خطرات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ مانا جاتا ہے کہ جوں جوں آئی ٹی پر انحصار بڑھتا جائے گا سائبر سکیورٹی کے تقاضے بھی بڑھتے جائیں گے۔ اس تناظر میں آرمی چیف نے بہت اہم ریاستی ذمہ داری کی نشاندہی کی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ سائبر سکیورٹی کی پالیسی پر پوری طرح عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور سکیورٹی کے جملہ امکانات کو مد نظر رکھا جائے۔ ملک کی سائبر سکیورٹی کو اسی وقت یقینی بنایا جا سکتا ہے جب معاملات پیشہ ورانہ صلاحیت کے حامل اُن لوگوں کے ہاتھ میں ہوں جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی پیچیدیوں سے بخوبی آگاہ ہوں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں