اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

دہشت گردی کے پے درپے واقعات

 خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے 38افراد کے جاں بحق ہونے کا اندوہناک وقوعہ بڑھتے سکیورٹی خطرات کا غماز ہے۔ قریب تین ماہ قبل کرم میں دو قبائل کی لڑائی میں متعدد افراد کی ہلاکت کے باعث اپر اور لوئر کرم کا درمیانی راستہ ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کر دیا گیا تھا تاہم مقامی جرگہ کی کوششوں سے گزشتہ ہفتے ہی یہ راستہ کھولا گیا اور تمام مسافروں کو پولیس سکیورٹی میں قافلے کی شکل میں لے جایا جاتا تھا مگر گزشتہ روز دہشتگردوں نے پہلے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا اور پھر تقریباً 200 گاڑیوں پر مشتمل قافلے پر دونوں اطراف سے فائرنگ کر دی۔ بے گناہ شہریوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کو نرم ترین الفاظ میں بھی درندگی ہی سے تعبیر کیا جا سکتاہے۔ اگرچہ فی الوقت اس دہشتگردانہ حملے کے بارے زیادہ معلومات دستیاب نہیں مگر بادی النظر میں حملے کا طریقہ کار اور اس کی منصوبہ بندی ظاہر کرتی ہے کہ اس میں دہشتگردوں کا ایک بڑا گروپ ملوث تھا۔ ایسا علاقہ‘ جو تین اطراف سے افغانستان سے گھرا ہو اور جہاں چوتھی سمت میں سخت سکیورٹی انتظامات ہوں‘ وہاں جدید اسلحہ اور گولہ بارود کہاں سے پہنچ رہا ہے‘ یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ سرحد پار سے کمک اور سہولت کے بغیر ایسا منظم حملہ ممکن نہیں۔ طالبان کی کابل میں واپسی اُن عناصر کیلئے ایک بڑی سہولت ثابت ہوئی ہے جو افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلاتے ہیں۔ غیر ملکی افواج کا افغانستان میں چھوڑا گیا اسلحہ اور حساس دفاعی آلات ان دہشتگردوں کے ہاتھ آ کر موت بانٹنے والی مشین بن چکے ہیں۔ افغانستان میں دہشتگردی کے نیٹ ورک کس طرح پروان چڑھ رہے ہیں اس کا علم ایک تھنک ٹینک کی اس رپورٹ سے ہو جاتا ہے جس کے مطابق افغانستان سے 23 دہشتگرد تنظیمیں 53 ممالک میں دہشتگردی میں ملوث ہیں‘ جن میں پاکستان سرفہرست ہے۔ اگست 2021ء میں کابل میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان کی مغربی سرحد پر سکیورٹی خدشات اور اندرونِ ملک دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 2021ء میں دہشتگردی کے 268 ‘ 2022ء میں 365 اور 2023ء میں 527 واقعات پیش آئے۔ رواں سال اب تک دہشتگردی کے 692 واقعات میں 1150سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔ یہ جانی نقصان 2015ء کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ دہشتگردی کے واقعات کی شدت سے قطع نظر‘ یہ امر بھی توجہ لائق ہے کہ اس دوران سکیورٹی فورسز کی انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں مؤثر طور پر جاری ہیں‘ بصورت دیگر دہشتگردی کے درپیش خطرات کی شدت کہیں زیادہ ہونے کا احتمال تھا۔ گزشتہ ماہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے دنیا کو افغانستان کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے اپیل کی تھی کہ عالمی برداری آگے بڑھے تاکہ افغانستان کی سرزمین کو کوئی بھی تنظیم اس کے پڑوسیوں کے خلاف دہشتگردی کیلئے استعمال نہ کر سکے۔ پاکستان افغانستان کی جانب سے جن اندیشوں کااظہار کرتا آ رہا ہے‘ دوست ممالک اور عالمی طاقتیں ان خدشات کی توثیق کر چکے ہیں۔ داخلی سکیورٹی انتظام کو بہتر بنانے کی ضرورت اپنی جگہ اہم مگر جب تک دہشتگردوں کی کمک پر ضرب نہیں لگائی جائے گی‘ دہشتگردی میں کمی ممکن نہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ یہ معاملہ پوری شدت سے اٹھایا جائے۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ روابط کے علاوہ یہ کاوش دوست ممالک کے توسط سے بھی جاری رہنی چاہیے۔ اب تک افغانستان کی طرف سے اس ضمن میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا گیا ہے لیکن اب مزید ہٹ دھرمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ افغان حکام کو یہ باور کرانا ہو گا کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشتگردوں کی آماجگاہ نہ بننے دیں اور اس حوالے سے عالمی معاہدوں کی پاسداری کریں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں