تحمل ، احتیاط اور مفاہمت کی ضرورت
24 نومبر کو ملک کے مختلف شہروں سے نکلنے والا پی ٹی آئی کا احتجاجی جلوس اسلام آباد میں داخل ہو چکا ہے‘ جہاں سخت سکیورٹی اقدامات کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار مستعد کھڑے ہیں۔ متعدد مقامات پر مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں ہوئیں‘ جن میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔ قبل ازیں منگل کو صبح چار رینجرز اہلکاروں کی شہادت کے بعد آرٹیکل 245 کے تحت وفاقی دارالحکومت کی سکیورٹی پاک فوج کے سپرد کر دی گئی جسے شرپسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے احکامات بھی دیے گئے۔ گزشتہ روز تمام دن وفاقی دارالحکومت کی سڑکیں میدانِ جنگ بنی رہیں۔ متعدد مقامات پر مظاہرین نے پولیس پر پتھرائو کیا‘ اسکی گاڑیوں کو آگ لگائی اور فائرنگ بھی کی گئی جس پر پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ پولیس کے مطابق دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور پُرتشدد سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد گرفتار ہو چکے ہیں اور اسلام آباد میں سی آئی اے بلڈنگ کو گرفتار شدگان کیلئے سب جیل قرار دیا گیا ہے۔ احتجاج کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین اعلیٰ سطحی رابطے بھی جاری ہیں مگر مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد بھی تادم تحریر کسی بات پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے مطابق پی ٹی آئی قیادت مذاکرات چاہتی ہے مگر ’خفیہ ہاتھ‘ مذاکرات کو کامیاب ہونے نہیں دے رہا۔ اس خفیہ ہاتھ سے متعلق انکا کہنا تھا کہ ایک خفیہ لیڈرشپ تمام احتجاج کو کنٹرول کر رہی ہے جس کے ارادے کچھ اور ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق مظاہرین کو سنگجانی کے مقام پر احتجاج کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ اگرچہ چند حکومتی ذمہ داران مذاکراتی عمل معطل کرنے اور طاقت سے احتجاجیوں سے نمٹنے کا عندیہ دے رہے ہیں مگر دوسری جانب معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اسے افہام و تفہیم سے سلجھانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ گو کہ اب تک کوئی درمیانی راہ نہیں نکل رہی لیکن مذاکرات کا یہ سلسلہ تھمنا نہیں چاہیے اور بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔ بہتر ہوتا کہ احتجاج کے آغاز سے پہلے ہی ایک دوسرے پر حاوی ہونے اور طاقت کے اظہار کی خواہش کے بغیر مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا اور نوبت یہاں تک نہ آتی۔ بہرکیف اب بھی طاقت کے استعمال کے بجائے سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ دسیوں ہزار افراد‘ جو اس وقت سڑکوں پر ہیں‘ انہیں پُرامن اور آئین وقانون کے تابع رکھنے کی ذمہ داری تو اُس لیڈرشپ پر عائد ہوتی ہے جو مظاہرین کو یہاں تک لے کر آئی ہے تاہم حکومت کو بھی تحمل اور برداشت کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہیے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حکومت حکمت کا نام ہے۔ طاقتور ہونے کے باوجود حکومت مظاہرین سے ان کی سطح پر جا کر بات کرتی اور ان کے مطالبات پر کان دھرتی ہے۔ بے جا طاقت کا اظہار جس قدر بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور یقینا کوئی بھی فریق اپنے دامن پر یہ داغ نہیں لگانا چاہے گا۔ اس وقت فریقین بارود کے ایک ڈھیر پر کھڑے ہیں اور کسی بھی جانب سے ذرا سی بے احتیاطی چنگاری کا کام کر سکتی ہے‘ لہٰذا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب یہ بھی پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ پانچ روز سے وفاقی دارالحکومت سمیت ملک میں عملی طور پر تمام سرگرمیاں معطل ہیں اور یہ منظرنامہ ملکی تشخص پر بھی منفی ثابت ہو رہا ہے۔ اگر مظاہرین کے مطالبات دیکھے جائیں تو بانی پی ٹی آئی کی رہائی ان کا سب سے بڑا مطالبہ ہے جبکہ حکومت اس معاملے کو قانونی طریقہ کار سے عدالتوں کے ذریعے نمٹانے کا کہہ رہی ہے۔ صائب طریقِ عمل بھی یہی ہے کہ قانونی اور عدالتی معاملات احتجاج کے ذریعے سڑکوں کے بجائے مروج طریقہ کار سے ہی طے پائیں۔ بہرکیف اس وقت جو حالات ہیں‘ دونوں فریق اس میں برابر کے ذمہ دار ہیں اور ریاست و حکومت کی کامیابی اس میں ہے کہ اس صورتحال کو پُرامن طریقے سے نمٹایا جائے۔