فتنہ خوارج اور افغانستان
جنوبی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر خوارج کے حملے میں 16جوانوں کی شہادت نے پوری قوم کو غمزدہ کر دیا ہے۔ جوابی کارروائی میں آٹھ خوارج کو ہلاک کر دیا گیا۔ حملے کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے گزشتہ روز جنوبی وزیرستان کا دورہ کرتے ہوئے یہ عزم دہرایا کہ افواجِ پاکستان فتنہ الخوارج اور اس کے سہولت کاروں کو شکست دیں گی اورملک میں دیرپا اور پائیدار امن کا قیام یقینی بنائیں گی۔حالیہ حملے میں رتبۂ شہادت پر فائز ہونے والے جوانوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شہدا پاکستان کا فخر ہیں‘ نہ شہدا کوبھولیں گے‘ نہ ان کا خون رائیگاں جائے گا۔ سکیورٹی فورسزدفاعِ وطن کی خاطر دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور نو سے 22دسمبر تک مختلف کارروائیوں میں 65سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے‘ لیکن ان کارروائیوں کے باوجود دہشت گردی میں اضافہ تشویشناک ہے۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق رواں سال ملک میں دہشت گردی کے 761 واقعات میں 701 فوجی جوان شہیداور 576 شہری جاں بحق ہوئے۔دہشت گردی کے تقریباً 97فیصد واقعات خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں رونما ہوئے۔ ہر دو صوبوں میں دہشت گردی میں اضافے کی بڑی وجہ ان صوبوں کی سرحدوں کا افغانستان سے ملحق ہونا ہے۔ افغانستان کی طرف سے مؤثر بارڈر مینجمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد سرحد پار کرتے ہیں اور پاکستانی علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد پھر سے افغانستان میں چھپ جاتے ہیں۔اگرچہ پاکستان کی طرف سے پاک افغان بارڈر کو محفوظ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے‘ دو روز قبل بھی سکیورٹی فورسز نے ضلع خیبر کے علاقے راجگال میں پاک افغان بارڈر پر فتنہ الخوارج کی در اندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے چارخوارج کو ہلاک کیا لیکن افغان حکام کی اس اہم مسئلے سے چشم پوشی دہشت گردوں کو سہولت فراہم کر رہی ہے۔ یہ افغانستان کی ہمسائیگی کا ہی اثر ہے کہ خیبر پختونخوا کی قبائلی پٹی کے اضلاع ایک مدت سے بدامنی کا شکار ہیں۔ ماضی میں افواجِ پاکستان کی کوششوں سے ان علاقوں سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر دیے گئے جس سے مقامی آبادی نے سکھ کا سانس لیاتاہم 2021ء میں افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد کی صورتحال میں کالعدم ٹی ٹی پی کو جو نفسیاتی اور مادی فائدہ ملا اس سے پاکستان کے ان سرحدی اضلاع میں امن و امان کی صورتحال تیزی سے بگڑنا شروع ہو گئی۔ یہ بگاڑ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے واضح ہے جن کا مقصد خطے میں بدامنی اور وسیع پیمانے پر عدم تحفظ پیدا کرنا ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ دوحہ معاہدے پر عمل کرتے ہوئے بارڈر مینجمنٹ بہتر بنائیں تاکہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف نہ استعمال ہو سکے۔