سیاسی مذاکرات کی پیش رفت
پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی کی تشکیل اور قو می اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق کی جانب سے آج دونوں کمیٹیوں کو ملاقات کی دعوت موجودہ سیاسی حالات میں ایک اہم پیش رفت ہے ۔ دونوں جانب کی مذاکراتی کمیٹیوں میں سنجیدہ اور تجربہ کار شخصیات شامل ہیں جن سے توقع کی جاسکتی ہے کہ جو ذمہ داری انہیں دی گئی ہے اسے نیک نیتی سے انجام دیں گی اور مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کی پوری کوشش کریں گی۔ سیاسی مذاکرات کاروں پر یہ قومی ذمہ داری ہے کہ اس بحران کا کوئی حل تلاش کریں۔ بظاہر یہ آسان کام نہیں کہ پچھلے کچھ عرصہ کے دوران سیاسی اختلافات کی حدیں بہت پھیل چکی ہیں‘ البتہ پُر امید امکان یہ ہے کہ دونوں جانب کے دھڑوں کو سیاسی بحران کے منفی اثرات کا احساس ہو چکا ہے اور یہ سوچ پیدا ہوئی ہے کہ باہم تصادم کے بجائے سیاسی لڑائی کو طے شدہ حدود میں رہ کر لڑا جائے۔ یہی بات تھی جس کی جانب سیاسی حلقوں کی توجہ پچھلے قریب تین برس سے دلائی جارہی تھی کہ سیاسی اختلافِ رائے کو کسی نظم و ضبط کا پابند کیا جانا چاہیے‘ اسی میں سیاست کی ‘ عوام اور ملک کی بھلائی ہے۔مگر سیاسی رہنما پُر جوش اور ٹکراؤ پر آمادہ رہے۔ یوں ملکِ عزیز پچھلے کوئی دو برس سے کئی طرح کے سیاسی ہنگاموں سے گزرا‘ مقدمات بنے‘ پکڑ دھکڑ ہوئی اور اب سزائیں سنائے جانے کا مرحلہ ہے۔ پی ٹی آئی نے حالیہ کچھ عرصے کے دوران بھی احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کی متعدد کوششیں کیں مگر سیاسی ماحول میں وہ گرمی پیدا نہیں کر سکی جو حزبِ اختلاف کو مطلوبہ ماحول فراہم کر سکتی۔بالآخر بات چیت ہی کا راستہ رہ جاتا تھا۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے اس راستے کا انتخاب کر کے اپنی سیاسی زندگی کا بہترین فیصلہ کیا ۔ بہتر ہوتا کہ 2022 ء کے ابتدائی مہینوں ہی میں اسی جانب پیش رفت کی جاتی ۔ اگر ایسا ہوتا تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آج ملک کے حالات کہیں مختلف ہوتے۔ کم از کم سیاسی سطح پر وہ بد مزگی تو نہ ہوتی جو پچھلے دو ‘ ڈھائی برس سے ملکی منظر نامے پر چھائی ہوئی ہے۔ اس سائے سے نکلنا اور آپس میں خوشگوار سیاسی تعلق کا ماحول پیدا کرنا سیاسی جماعتوں کے لیے ناگزیر ہے۔ صرف یہی ایک صورت ہو سکتی ہے کہ سیاسی قیادت جم کر ملکی اور عوامی مفاد پر توجہ دے سکے‘ جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔ یہ کام جتنا حزبِ اختلاف کے لیے اہم ہے اس سے زیادہ حکومت کو اس کی ضرورت ہے کیونکہ سیاسی انتشار کا ماحول حکومتی ایجنڈے کے لیے قطعی طور پر موافق نہیں ۔ حکومت کی کامیابی کی دلیل اس کی کارکردگی ہو گی نہ کہ سیاسی مخالفین کی روک تھام میں اس کی مہارت اور گرفت۔پاکستان کی معاشی صورتحال میں نمایاں بہتری آ رہی ہے مگر سیاسی پولرائزیشن اس عمل کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔دو برس پہلے معیشت کو دیوالیہ قرار دینے کے سنجیدہ خطرات پیدا ہو چکے تھے مگر آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ افراطِ زر‘ شرحِ سود‘ زرِ مبادلہ کے ذخائر غرض اس مختصر عرصے میں چیزیں بہت حد تک تبدیل ہوئی ہیں اور خوش قسمتی سے یہ سبھی تبدیلیاںٕ مثبت اور احسن ہیں۔ اگر دو ڈھائی برس پہلے کے حالات میں سے کوئی چیز جوں کی توں ہے تو وہ سیاسی بے چینی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس ماحول میں بھی بدلاؤ آئے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب دونوں دھڑوں میں اس کی سنجیدہ سوچ پیدا ہو۔ مذاکراتی کمیٹیوں کے قیام کے ساتھ اس پیش رفت کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی ہے ‘ ضروری ہے کہ یہ سلسلہ آگے بڑھے اور نتیجہ خیز ثابت ہو۔ ہر دو مذاکراتی کمیٹیوں کے ارکان کی قابلیت کا بھی امتحان ہے کہ ان سے جو امیدیں وابستہ کی گئی ہیں وہ ان پر کس حد تک پورا اترتے ہیں۔ اگردونوں فریق کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہیں تو یہ ایسا مشکل بھی نہیں۔ دونوں دھڑوں کو کھلے دل کے ساتھ ایک دوسرے کی بات سننا ہو گی اور نیک نیتی سے معاملات کو آگے بڑھانا ہو گا۔