قومی سلامتی اور سیاسی قیادت کا کردار
قومی سلامتی سے متعلق آج پارلیمان کا متوقع اجلاس غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اجلاس کا مقصد سکیورٹی حکام کی جانب سے ملک کی موجودہ صورتحال کے بارے قانون سازوں کو آگاہی فراہم کرنا ہے۔ پچھلے چند برس کے دوران ملک عزیز میں دہشت گردی کا گراف تیزی سے اوپر گیا ہے اور تازہ صورتحال یہ ہے کہ رواں سال اب تک 76 دنوں میں دہشت گردی کے 190کے قریب واقعات ہو چکے ہیں۔ صرف واقعات کی تعداد ہی نہیں‘ ان کی سنگینی بھی لرزا دینے والی ہے۔ جعفر ایکسپریس کا واقعہ ایک مثال ہے‘ جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی دہشت گردی کے کئی بھیانک واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ تھانوں اور چیک پوسٹوں پر دہشت گردوں کے حملوں میں تیزی دیکھی جارہی ہے‘ جبکہ مساجد میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں بڑا اضافہ ہو ا ہے۔ اس طرح علمائے کرام اور دینی سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والے رہنماؤں پر حملوں میں اضافے کا رجحان ہے۔ادھر بلوچستان میں ایک دہشت گرد تنظیم کی کارروائیاں اگرچہ کئی برس سے جاری ہیں تاہم رواں سال کے آغاز کے ساتھ دہشت گردی کی وارداتوں میں خاصا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے اس حساس صورتحال میں سیاسی قیادت اور عسکری رہنماؤں کا مل بیٹھنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس طرح امید ہے کہ سیاسی اختلافات کی مہیب آوازیں دب جائیں گی اور عسکری حکام جو حقیقتِ حال سیاسی قیادت کے سامنے رکھیں گے اس کے بعد قومی سلامتی کے حوالے سے بہتر سیاسی فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی۔ اس اہم اجلاس میں شرکت کیلئے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وفد تشکیل دینے کا عندیہ بھی خوش آئند ہے۔ قومی سلامتی کو لاحق خطرات سے آگاہی حاصل کرنے کیلئے حزبِ اختلاف کی جماعت کا اس فورم پر موجود ہونا ضروری تھا۔ دہشت گردی کے حالیہ سنگین واقعات پر پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں یا پی ٹی آئی کے ارکان سے منسوب سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر جس قسم کے تبصرے شائع کیے گئے اس پر پی ٹی آئی کا ہدفِ تنقید بننا فطری تھا۔ اس حساس موقع پر بے جا تنقید اور بے بنیاد الزام تراشی کے بجائے سیاسی جماعتوں کو قوم اور ملک کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ سکیورٹی معاملات میں اصلاح کی تجاویز کے بجائے سیاسی مخالفین الزام برائے الزام سے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔ حکومت اور حزبِ اختلاف جمہوریت کی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ دونوں کا توازن میں چلنا ریاست کے فائدے میں ہے۔ باہمی ٹکراؤ سے کچھ حاصل نہیں سوائے مزید تصادم کے امکانات کے۔ یہ باہم تناؤ اور ٹکراؤ کسی کے فائدے میں نہیں سوائے پاکستان کے دشمنوں کے جن کیلئے یہ موقع غنیمت ہے کہ اُن کی پیدا کردہ تخریب کے سدباب کا سوچنے کے بجائے سیاسی قیادت کو آپسی مڈ بھیڑ سے فرصت نہیں۔ سیاستدانوں کا قومی سلامتی کو درپیش مسائل کو بھول کر ایک دوسرے سے حساب برابر کرنے کا رویہ کسی طور پاکستان کے ریاستی مفادات سے ہم آہنگ نہیں۔ دہشت گردوں کو شکست دینے سے پہلے ہمیں قومی سطح پر مثالی ہم آہنگی قائم کرنا ہوگی۔ یہ حکومت اور حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے بغیر ممکن نہیں۔ آج ہونے والے اہم اجلاس میں پی ٹی آئی کی امکانی شرکت درست سمت میں ایک قدم ہے‘ اگر حکومت بھی کوشش کرے اور گڑے مردے اکھاڑنے کے بجائے ملکی حالات کی نزاکت اور حساسیت کو دیکھے تو حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ مزید پیشرفت کا امکان پیدا کر سکتی ہے۔ سیاسی قیادت کو قومی سلامتی کے اہم امور کو ترجیح اول بنانا چاہیے اور یہ ثابت کرنا چاہیے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت‘ جب ملک پر مشکل وقت آئے تو ایک ہو جاتی ہے۔ ماضی میں بارہا ایسا ہوا ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ آج کی سیاسی قیادت کو ماضی کی اس روایت کا کتنا پاس ہے۔