اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

2025ء کیسا رہا؟

2025ء ملکِ عزیز پاکستان کے لیے کیسا رہا؟ اس سوال کا جواب تفصیل طلب ہے۔ رواں برس جہاں دفاع اور عالمی امور کے شعبوں میں پاکستان کو نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں وہیں معیشت اور سماجی اصلاحات کے حوالے سے خلا بدستور باقی ہیں۔ دہشت کے واقعات بھی رواں سال گزشتہ برسوں کی نسبت زیادہ ہوئے‘ تاہم سکیورٹی فورسز کی بھرپور کارروائیوں کے نتیجے میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔ عالمی تعلقات کو دیکھا جائے تو رواں سال پاکستانی قیادت کے غیر ملکی دوروں اور پاکستان کا دورہ کرنے والے غیر ملکی سربراہانِ حکومت اور اعلیٰ قیادت کے دوروں کی تعداد پاکستان کی عالمی برادری کے ساتھ ربط ضبط میں اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔ رواں سال امریکہ‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ ترکیہ‘ ایران‘ آذربائیجان‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش سمیت عالمی برادری کے متعدد شراکت داروں کے ساتھ پاکستان کے روابط میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ امریکہ کے ساتھ ہونے والی اس سال کی شروعات کو یقینی طور پر تاریخی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سال امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی گرمجوشی کے کئی حوالے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف اور چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے وائٹ ہاؤس کے دورے پاک امریکہ تعلقات کے باب میں گیم چینجر ثابت ہوئے۔ دفاع‘ معیشت‘ علاقائی وعالمی امن اور موسمیاتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے پاک امریکہ تعاون غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دوران جب صدر ٹرمپ کی ٹیرف وار عالمی معیشت کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی تھی پاکستان کو خطے کے دیگر ممالک کی نسبت رعایتی ٹیرف بھی پاکستان اور امریکہ کی شراکت داری میں بہتری کا اشارہ دیتا ہے۔ ماضی میں نئی دہلی کی مستقل پالیسی یہ رہی ہے کہ مغرب کے ساتھ قربت کو پاکستان کے خلاف ہتھیار کے طور پر برتا جائے۔ مگر اس بار آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔ مودی کی نرگسیت آڑے آئی اور واشنگٹن میں نئی دہلی کی بتی گل ہو گئی۔ اپریل میں ہونے والے پہلگام کے خود ساختہ واقعے کو جواز بنا کر مئی میں بھارت کے پاکستان پر جارحانہ حملے اور اس کے جواب میں پاکستان کے آپریشن بنیانٌ مرصوص نے عالمی اور علاقائی سطح پر ملکِ عزیز کی اہمیت کو چار چاند لگا دیے۔ افواجِ پاکستان کی اس مختصر مگر بے حد پیشہ ورانہ اور مؤثر ضرب نے ثابت کر دیا کہ پاکستان حقیقی معنوں میں دنیا کے اس حصے کی ایک اہم ترین عسکری قوت ہے۔

دفاعی مقاصد حاصل کر نے کے بعد پاکستان کی جانب سے کشیدگی کو طول نہ دینے کا فیصلہ اس امر کا ثبوت تھا کہ پاکستان ایک مؤثر قوت ہونے کے باوجود کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔ اس سال جب دنیا پہلے ہی عالمی سطح پر جنگوں میں الجھی ہوئی اور گھبرائی ہوئی تھی پاکستان کی جانب سے بھارت کے خلاف کارروائیوں کو طول نہ دینے کے خوش آئند اثرات سامنے آئے‘ جس کے ثبوت سال کے دوسرے آخر میں عالمی سطح پر پاکستان کے کردار کی توصیف‘ عالمی برادی کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے روابط اور خطے اور باہر کے ممالک کے پاکستان کی جانب جھکاؤ کی صورت میں ملتے ہیں۔ ماحولیاتی اعتبار سے یہ سال ملک عزیز کے لیے مشکلات سے بھرپور تھا۔ سال کا پہلا نصف ملک کے اکثر حصوں میں خشک سالی اور وسطی مہینے مون سون کے طویل ترین سلسلے میں گزر گئے۔ یہ ماحولیاتی المیہ پنجاب میں شدید سیلاب اور زرعی معیشت اور انفراسٹرکچر کے لیے تباہی کا سبب بنا۔ پہاڑی علاقوں میں بھی اس سال موسمی تباہ کاریاں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ رہیں۔ رواں سال دہشت گردی کا المیہ بھی نمایاں طور پر شدت اختیار کیے ہوئے تھا۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی سالانہ رپورٹ کے مطابق رواں سال دہشت گردوں کے حملوں کی تعداد 1063رہی‘ جو 2024ء کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ ہے۔ رواں سال 26 خودکش حملے رپورٹ ہوئے‘ گزشتہ برس یہ تعداد 17تھی۔ رواں سال دہشت گردی کے واقعات میں 664سکیورٹی اہلکار‘ 580شہری اور حکومت نواز امن کمیٹیوں کے 28ارکان شہید ہوئے جبکہ 2100سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں اس سال شدت پسندوں کی ہلاکتوں میں 122فیصد اضافہ ہوا۔ رواں سال شدت پسندوں کی گرفتاریوں میں بھی 83فیصد اضافہ ہوا۔ دہشت گردی کے بڑھتے واقعات پاک افغان تعلقات کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔ 2021ء میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد افغانستان میں ٹی ٹی پی کی سہولت کاری پاکستان میں دہشت گردی کے اضافے کا سبب رہی ہے اور اس حوالے سے پاکستان افغانستان کو مسلسل اپنی شکایات اور تشویش سے آگاہ کرتا آیا ہے‘ تاہم دوسری جانب سے کوئی سنجیدہ قدم اٹھائے جانے کے بجائے دہشت گردوں کی حمایت کا سلسلہ جاری رہا۔

اگرچہ افغان رجیم کے عہدیدار زبانی طور پر اپنی زمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے کی بیان بازی بھی کرتے رہے مگر بلی تھیلے سے باہر آ گئی اور طالبان رجیم کے لشکری اکتوبر میں سرحد پار سے پاکستان پر حملہ آور ہوئے۔ جوابی کارروائی میں منہ کی کھائی اور دم دبا کر بھاگے۔ بہرحال دوست ممالک کی مداخلت پر دونوں ملکوں میں پہلے دوحہ اور پھر استنبول میں مذاکرات ہوئے مگر طالبان رجیم افغان زمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی نہیں کروا سکا۔ نتیجتاً پاک افغانستان سرحد ہر قسم کی تجارت اور آمدورفت کے لیے بند ہے۔ پاکستان کے لیے افغانستان ایک بڑی برآمدی منڈی سمجھا جاتا ہے تاہم تجارتی مفادات قومی سلامتی سے بڑھ کر نہیں۔ رواں برس کا معاشی منظر نامہ سالِ گزشتہ کی نسبت قدرے بہتری دکھاتا ہے خاص طور پر میکرو اشاریوں میں بہتری کے آثار ہیں۔ روپے کی قدر میں کوئی بڑا رد وبدل دیکھنے میں نہیں آیا‘ شرح سود گزشتہ برس سے کم ہوئی‘ سٹاک مارکیٹ رواں برس ریکارڈ بلندیوں پر پہنچ گئی‘ سال کے آخر تک کے ایس ای 100انڈکس 172000پوائنٹس سے تجاوز کر گیا۔ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کی رپورٹوں میں بھی پاکستانی معیشت کی بحالی کو تسلیم کیا گیا۔

تاہم مائیکرو سطح پر معاشی حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی‘ بلکہ بہت سے اشاریے رو بزوال ہیں؛ چنانچہ عام آدمی کی حالت زار میں تبدیلی نظر نہیں آتی۔ معاشی جائزے افراطِ زر میں کمی کے شواہد پیش کرتے ہیں مگر عام آدمی کی قوتِ خرید اس قدر پچک چکی ہے کہ مہنگائی میں کمی کے حقیقی اثرات سامنے نہیں آ سکے۔ رواں برس پاکستان کو عالمی محاذ پر جو کامیابیاں حاصل ہوئیں انہیں معاشی ترقی میں تبدیل کرنا آنے والے سال کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ 2025ء کو دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات کی بحالی اور ماضی کی تنہائی کے اثرات کے خاتمے کا سال کہا جا سکتا ہے ‘ مگر 2026ء ان تعلقات کے طفیل پاکستان کی معیشت کی اٹھان کا سال ہونا چاہیے۔ اس کی بنیادیں بھری جا چکی ہیں‘ اگر اصلاحات اور اقدامات کا تسلسل رہے تو عملی نتائج کا حصول ناممکن نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں