تازہ اسپیشل فیچر

مخصوص نشستوں کا معاملہ پھر سپریم کورٹ میں!

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) مخصوص نشستوں کا معاملہ ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے، عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عملدرآمد کی ڈیڈ لائن گزر گئی مگر اس پر عملدرآمد کرنے کی بجائے اس کے راستے میں قانونی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان پہلے رہنمائی کیلئے سپریم کورٹ گیا اور گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان کے 12 جولائی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کر دی، دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن ایکٹ میں ہونے والی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔

ہفتے کے روز 13 رکنی بنچ کے دو اراکین، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کیا تو ملکی سیاست میں ہلچل مچ گئی، ان تینوں ڈویلپمنٹس کے بعد نظریں اب آٹھ جج صاحبان کے اکثریتی تفصیلی فیصلے پر ہیں جس کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔

جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان کے 29 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں تاحال اکثریتی ججوں کے تفصیلی فیصلے کے جاری نہ ہونے پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ تفصیلی فیصلے میں تاخیر نظرثانی کو غیر مؤثر کر سکتی ہے، اقلیتی فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینا غیر آئینی ہے، تحریک انصاف کیس میں فریق ہی نہیں تھی جبکہ سنی اتحاد کونسل نے بطور جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لیا بلکہ یہاں تک لکھ دیا گیا کہ ریاست کا کوئی ادارہ ایسے عدالتی حکم پر عمل کا پابند نہیں جو آئین کے مطابق نہ ہو۔

یوں اس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں جو اختلافِ رائے سامنے آیا وہ فیصلوں میں بھی شدت کے ساتھ سامنے آنے لگا ہے، ایسے میں تفصیلی فیصلہ جو بظاہر عدالتی تعطیلات کے باعث تاخیر کا شکار ہے، نہ صرف اس لحاظ سے دلچسپ ہوگا کہ اس میں اختلافی نوٹ میں اٹھائے گئے سوالات کے دلچسپ جواب بھی آسکتے ہیں، اس کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں۔

وہ سوالات جو تفصیلی فیصلے کو انتہائی اہمیت کا حامل بنا سکتے ہیں یہ ہیں: کیا اس فیصلے میں 8 فروری کے انتخابات کے انعقاد کے دوران ہونے والی غلطیوں پر بات ہوگی ، جو انتخابی عمل سے متعلق ایک نئی بحث چھیڑ سکتی ہے؟ کیونکہ اس کیس میں 8 فروری کے انتخابات کے دوران رکھی گئی اُس غلط بنیاد کو ٹھیک کیا گیا ہے جس کے باعث پاکستان تحریک انصاف بطور جماعت انتخابی عمل سے باہر ہوگئی تھی، کیا اس فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے متعلق کوئی آبزرویشنز آسکتی ہیں؟ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ملکی سیاست میں ایک مرتبہ پھر بھونچال آتا دکھائی دے رہا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان پہلے ہی سپریم کورٹ سے رہنمائی کیلئے رجوع کر چکا ہے کہ عدالت عظمیٰ بتائے کہ تحریک انصاف کا سٹرکچر موجود نہ ہونے کے باعث اس فیصلے پر عملدرآمد کیسے کیا جائے؟ اب گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 39 ارکان کی حد تک فیصلے پر عملدرآمد کر دیا ہے مگر نہ تو تحریک انصاف اس کیس میں پارٹی تھی نہ ہی آزاد ارکان نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، ایسے حقائق کو بھی مان لیا گیا جو عدالتی ریکارڈ پر تھے ہی نہیں۔

41 ارکان کو دوبارہ پارٹی وابستگی کا موقع فراہم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، فیصلے پر نظرثانی کی جائے، اسی روز پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمان میں ہونے والی قانون سازی کو چیلنج کیا ہے،بیرسٹر گوہر کی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جائے،الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو الاٹ کرنے سے فوری روک دیا جائے، یوں یہ معاملہ اب دوبارہ سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے۔

الیکشن ایکٹ میں کی جانے والی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ انتخابی نشان کے حصول سے قبل پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانے والا امیدوار آزاد تصور ہوگا، فہرست نہ دینے والی جماعت مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہوگی، آزاد امیدواروں کیلئے کسی بھی جماعت میں شمولیت کی مہلت صرف تین روز ہوگی، پارٹی وابستگی کا ایک مرتبہ کیا گیا اظہار نا قابلِ تنسیخ ہوگا، حکومتی تشریح کے مطابق اس قانون سازی کے بعد پاکستان تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم رہے گی اور اس قانون کے اطلاق کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد رُک جائے گا۔

حکومت نے اپنی دو تہائی اکثریت کے خواب کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے لگنے والے دھچکے کے بعد پارلیمان کا سہارا لیا اور قانون سازی کر کے وقتی طور پر مخصوص نشستوں کے معاملے کو فتح میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے، مگر اسے حتمی طور پر حکومت کی کامیابی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس دو تہائی اکثریت کے ایسے نتائج ہیں جو عدل کے ایوانوں پر بھی مرتب ہوں گے۔ اگرچہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ یہ وضاحت دے چکے ہیں کہ ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں توسیع کا کوئی منصوبہ نہیں مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا یہ بیان عدل کے ایوانوں میں متعلقہ حلقوں کیلئے تھا، دو تہائی اکثریت ملنے کی صورت میں یہ معاملہ حکومتی ترجیح کا حصہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بہترین سادہ اکثریت رکھنے والی حکومت مزید نشستیں حاصل کرنے کی خواہشمند ہے جس کیلئے وہ مخصوص نشستوں سے متعلق عدالتی فیصلہ ماننے کو تیار دکھائی نہیں دیتی اور الیکشن کمیشن کے اقدامات نے حکومتی خواہش کیلئے آسانی پیدا کر دی ہے۔

حکومت یہ سمجھتی ہے کہ رواں برس اکتوبر میں ہونے والی ڈویلپمنٹس کے بعد اس کیلئے کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، خواجہ آصف تو اس خدشے کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ اکتوبر، نومبر کے بعد 8 فروری کے انتخابات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مخصوص نشستوں کا معاملہ محض سیاسی کھینچا تانی یا ضد نہیں بلکہ حکومت اس معاملے کو اپنی بقا سے جوڑ رہی ہے۔

آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کو کس طرح لیتی ہے، مخصوص نشستوں کے معاملے پر ریاست کے تین ستون، عدلیہ ، مقننہ اور انتظامیہ آمنے سامنے ہیں، اس فیصلے اور اس سے جڑی صورتحال کو واضح ہونے میں اب زیادہ وقت نہیں لگے گا۔