تازہ اسپیشل فیچر

لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی فوجی تحویل کا باعث بننے والا ٹاپ سٹی کیس ہے کیا؟

لاہور: (دنیا نیوز، ویب ڈیسک) پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ٹاپ سٹی کیس میں مطابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے کر کوٹ مارشل کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے، دراصل ٹاپ سٹی کیس ہے کیا؟

ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سکیم کے مالک معز احمد خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ 12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ کیس کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معز خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر سونے اور ہیروں کے زیورات اور رقم سمیت قیمتی سامان لوٹ لیا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کی اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، بریت کے بعد جنرل (ر) فیض حمید نے معز خان سے ان کے کزن کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے رابطہ کیا جوکہ فوج میں ایک بریگیڈیئر ہیں۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ ملاقات کے دوران جنرل (ر) فیض حمید نے درخواست گزار کو کہا کہ وہ چھاپے کے دوران چھینا گیا 400 تولہ سونا اور نقدی کے سوا کچھ چیزیں واپس کر دیں گے۔

درخواست میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4 کروڑ نقد ادا کرنے اور کچھ مہینوں کے لیے ایک نجی چینل کو سپانسر کرنے پر مجبور کیا۔

درخواست کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق عہدیدار ارتضیٰ ہارون، سردار نجف، وسیم تابش، زاہد محمود ملک اور محمد منیر بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے غیر قانونی قبضے میں ملوث تھے۔

سپریم کورٹ نے 14 نومبر 2023 کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کیس کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں عدالت نے کہا کہ الزامات سنجیدہ ہیں، انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار کے مطابق ٹاپ سٹی پر قبضے کے لیے ان کو اور اہل خانہ کو اغوا کیا گیا، جنرل (ر) فیض حمید پر رینجرز اور آئی ایس آئی حکام کے ذریعے درخواست گزار کے آفس اور گھر پر چھاپے کا الزام ہے۔

عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں لکھا کہ جنرل (ر) فیض حمید پر درخواست گزار کے گھر کا سامان اور سوسائٹی کا ریکارڈ چوری کرنے کا بھی الزام ہے، الزامات سنجیدہ ہیں، انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184/3 کے معیار پر پورا نہ اترنے پر فیض حمید کے خلاف درخواست نمٹاتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کے پاس فیض حمید سمیت دیگر فریقین کے خلاف دوسرے متعلقہ فورمز موجود ہیں۔