گندم خریداری کا بحران پنجاب حکومت کے لئے امتحان

گندم خریداری کا بحران پنجاب حکومت کے لئے امتحان

(تجزیہ: سلمان غنی) گندم کی خریداری کے حوالہ سے پیدا شدہ بحران حکومت کیلئے بڑا امتحان بن گیا ہے اور ہر آنے والے دن میں بحرانی کیفیت ہیجانی کیفیت میں تبدیل ہو رہی ہے ،آخر کیا وجہ ہے کہ محکمہ خوراک اس خریداری کے حوالہ سے ہاتھ کھڑے کرتا نظر آ رہا ہے۔

کیا گندم کی خریداری ہدف صرف 20لاکھ میٹرک ٹن تک محدود کرنے سے زرعی معیشت محفوظ بن سکے گی ، کاشتکار کو ریلیف مل سکے گا۔اس بحران کی بڑی وجہ لاکھوں ٹن گندم کی موجودگی کے باوجود نگران دور میں 25لاکھ ٹن گندم کی درآمد ہے ، دوسری جانب گندم کی امدادی قیمت مقرر کرتے ہوئے سوچا گیا کہ یہ قیمت 2سال سے چل رہی ہے جبکہ عملاً صورتحال یہ ہے کہ پچھلے سال کے مقابلے میں آج کی پیداواری لاگت کئی گنا بڑھ گئی ہے ،افسوس اس امر پر ہے کہ کابینہ اجلاس اور اراکین اسمبلی کی اکثریت کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے اور وہ کاشتکار کی حالت زار اور خصوصاً گندم کے بحران سے آگاہی کے باوجود متعلقہ فورمز پر کسان کی آواز نہیں بنتے ، مجبور اور بے کس کسان اپنی ہی حکومت کو کوستے نظر آتے ہیں مذکورہ صورتحال پر جب راقم الحروف نے حکومت کے ایک ذمہ دار ترین فرد سے اس بحران کا ذکر کیا تو انہوں نے انتہائی رازداری میں اس بحران کو حکومت کیلئے طوفان قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی گندم 3400 میں فروخت کی ہے تو اب عام کاشتکار کی تکلیف کا اندازہ کرلیں لہٰذا اس حوالہ سے اب گیند وزیراعلیٰ مریم نواز صاحبہ کی کورٹ میں ہے کیونکہ یہ فیصلہ ان کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں ہوا ،باردانہ پر حکومت پنجاب کے سٹیکرز آویزاں کرنے کے حوالے سے اطلاعات یہ ہیں کہ اس محکمہ نے اس حوالہ سے آرڈرز ہی جاری نہیں کیے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز صاحبہ مہنگائی زدہ عوام کیلئے سولہ روپے کی روٹی جیسے عوام دوست اقدام کے ساتھ گندم کی فراہمی ممکن بنانے والے کاشتکاروں کے زخموں پر مرہم کا بندوبست کریں اور گندم کی خریداری کے حوالے سے خود اپنے والد نواز شریف اور چچا وزیراعظم شہباز شریف سے مشورے ضرور کریں وہ یقیناً ان کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے انہیں غریب کاشتکار کی داد رسی کا مشورہ اور اقدام کرنے کو کہیں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں