اللہ تعالیٰ نے تورات نازل فرمائی تو اس کا آغاز کائنات کی پیدائش سے کیا۔ آگاہ فرما دیا کہ پیدا کرنے والا ایک اللہ ہی ہے۔ اس کے بعد دس بنیادی اصولوں اور احکامات میں جو پہلا اصول اور حکم ہے‘ وہ اللہ کی توحید ہے۔ ان دس احکامات کو Ten Commandments کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ اللہ کو خالق و مالک مان کر آگے بڑھو گے تو ٹھوکریں کھائے بغیر‘ علم کے میدان میں آگے بڑھتے چلے جائو گے۔ تورات کے کوئی تین ہزار سال بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ پر اپنی آخری کتاب قرآنِ مجید کو نازل فرمایا تو اپنے حبیبﷺ کو مخاطب فرما کر اولین الہام یہ فرمایا کہ ''پڑھو اپنے پالنہار (رب) کے نام سے‘ جس نے(ہر موجود) کو پیدا فرمایا۔(جہاں تک انسان کا تعلق ہے تو اسے) جونک نما جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے (رحمِ مادر کے اندر) تخلیق فرمایا‘‘(العلق: 1 تا 2)جی ہاں! صراحت کے ساتھ واضح کر دیا کہ کائنات میں موجود جو علم ہے اس کا سرچشمہ اللہ واحد کی ذاتِ گرامی ہے‘ اسے مانو گے تو کائنات کیوں اور کیسے موجود ہے‘ اس کی بھی سمجھ آئے گی اور اس کے اندر انسان کی تخلیق کے مقصد کی بھی سمجھ آئے گی۔ اس بنیادی حقیقت کو ایمان بنا کر آگے بڑھو گے تو تمام علمی اور سائنسی گتھیاں حل کرتے چلے جائو گے اور علم کے زینے چڑھتے ہوئے انسانیت کی تکریم کو چار چاند لگاتے چلے جائو گے۔ ایسا نہیں کرو گے تو خود بھی بھٹکتے پھرو گے اور انسانیت کو بھی خون آلود کرکر کے درندگی پھیلاتے چلے جائو گے۔
کل اور آج کے سائنسدانوں کا جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ کائنات کے خالق کی تلاش ہے۔ وہ لاکھ خدا کا انکار کریں مگر اس حقیقت کو تو وہ پا چکے کہ چھوٹے سے چھوٹے ذرے سے لے کر آسمان کی بناوٹ اور کہکشائوں تک‘ ہر ہر مخلوق پر چار طاقتیں حکمرانی کر رہی ہیں۔ ان چارقوتوں کے نام ہیں: کششِ ثقل‘ کمزور نیو کلیائی قوت‘ الیکٹرو میگنیٹزم اور مضبوط نیو کلیائی قوت۔ اب سائنسدان کہتے ہیں کہ نظریاتی طور پر ان چاروں قوتوں کو ملا کر ایک قوت بنا دیں تو کائنات کو سمجھناآسان ہو جائے گا۔ آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ یہ کوشش کرتے رہے مگر کائنات کے خالق کے وجود کے بارے میں وہ مشکوک تھے‘ لہٰذا ذہنی کوشش کر کر کے آخر کار ناکام اس دنیا سے چلے گئے۔ سائنسدان آج بھی ناکام ہیں۔ جس دن وہ اللہ واحد کو مان کر‘ اس کائنات کے خالق کو مان کر آگے بڑھیں گے اس دن وہ اپنی منزل (Single Equation)کو پا لیں گے۔ یعنی سائنسدان توحید کی تلاش میں ہیں۔ یاد رکھیں! جو مذہبی لوگ توحید کو مانتے ہیں مگر خالق کی مخلوق میں یعنی انسانیت میں تفریق کرتے ہیں کہ ہم ہی بہترین ہیں‘ باقی کی کوئی حیثیت نہیں وہ بھی انسانیت کے لیے غیر مفید ہوتے ہیں اور ظلم کی حدیں اس قدر کراس کر جاتے ہیں کہ بہیمیت کا سر بھی شرم سے جھک جاتا ہے۔
مجھے ایچی سن کالج کے ایک پروفیسر یاد آئے۔ میرے دوست تھے۔ اللہ کے ایسے ولی تھے کہ لاہور میں ریاض الجنۃ کی مسجد کے خطیب بھی تھے۔ درویش صفت‘ عالم باعمل تھے۔ وہ لاہور میں گڑھی شاہو کے علاقے میں عید کی نماز پڑھایا کرتے تھے۔ میں لاہور نہر کے کنارے دھرم پورہ پل کے پاس عید کی نماز پڑھاتا تھا۔ ایک عید کے موقع پر جب میں عیدگاہ پہنچاتو کیا دیکھتا ہوں کہ اگلی صف میں ایچی سن کالج کے پروفیسر محترم میاں خان تشریف فرما ہیں۔ ہم دونوں گلے ملے‘ میں نے پوچھا: آپ یہاں کہاں؟ فرمانے لگے: میں نے آپ کا مقتدی بننے کو ترجیح اس لیے دی کہ عید تو مسلمانوں کی اجتماعیت کا شعار ہے۔ میں نے تمام نمازیوں اور مقتدیوں کو اس پر قائل کیا اور اپنے ہمراہ لے کر آ گیا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں حیران رہ گیا کہ ایسے اللہ والے ابھی میرے دیس میں موجود ہیں‘ انہی کے دم قدم سے پاکستان قائم ہے اور سارا جہان قائم ہے۔ وہ حسین نوازشریف کے بھی استاد تھے۔ محترم میاں خان دس سال تک فالج کا شکار رہنے کے بعد وفات پا گئے۔ انہوں نے ایک سوسائٹی میں ایک کنال جگہ لے رکھی تھی۔ اس جگہ پر کچھ قبضہ ہو گیا اور متعلقہ افراد نے سٹے لے لیا‘ سالوں تک فیصلہ نہ ہو سکا۔ پروفیسر صاحب ریٹائر ہو گئے‘ ساری عمر کی جمع پونجی ضائع ہو گئی۔ اسی غم میں فالج کا شکار ہونے کے بعد وہ فوت ہو گئے۔ اگرچہ مریدکے میں ایک چھوٹا سا گھر بھی تھا مگر لاہور میں ذاتی رہائش نہ ہونے کا غم لے کر چل بسے۔ میں وزیراعلیٰ پنجاب سے گزارش کروں گا کہ اس معاملے کو خصوصی توجہ سے دیکھیں‘ ان شاء اللہ اہلِ علم کی قدردانی کا صلہ دنیا و آخرت میں ضرور ملے گا۔ ساتھ ہی وہ قبضہ مافیا کو ٹھیک کرنے کا جو نظام بنا رہی ہیں‘ تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وزیراعلیٰ پنجاب کو اس میں کامیابی عطا فرمائیں‘ آمین!
میرے دیس میں آج کل غزہ کے مفتی اعظم جناب ڈاکٹر محمود یوسف الشوبکی تشریف لائے ہوئے ہیں۔ آپ غزہ شہر میں سب سے بڑی اسلامی یونیورسٹی میں شعبۂ اسلامیات کے سربراہ تھے۔ آپ مدینہ یونیورسٹی کے فاضل اور جامعہ ازہر سے پی ایچ ڈی ہیں۔ لاہور‘فیصل آباد‘ ملتان‘ گوجرانوالہ‘ ایبٹ آباد اور پشاور میں ان کے انتہائی مؤثر پروگرام ہوئے۔ مجھے تمام پروگراموں میں ان کی ہمراہی کا شرف ملا اور خطاب کا موقع بھی۔ محترم قاری محمد یعقوب شیخ‘ جو خود ریاض یونیورسٹی کے گولڈ میڈلسٹ ہیں‘ہر پروگرام میں انہوں نے خطاب بھی کیا اور مفتی اعظم کے عربی خطاب کا باکمال ترجمہ بھی کیا۔ محترم استاذ سیف اللہ خالد‘ ڈاکٹر ناصر ہمدانی‘ جو اہلِ غزہ کی مدد کیلئے مفتی اعظم فلسطین کے ہمرکاب ہیں‘ یہ سب حضرات اپنے دن رات اہلِ غزہ کی ہمدردی میں ایک کیے ہوئے ہیں۔
یورپ اور امریکہ نے پاپائیت اور تھیو کر پسی سے جان چھڑا کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تو سائنس کے میدان میں ان کی مفید سائنسی ایجادات سے دنیا بھر کی انسانیت کو فائدہ پہنچا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاپائی جابرانہ حکمرانی سے بھی چھٹکارا حاصل کیا۔ وراثتی حکمرانی سے نجات حاصل کی اور جمہوری نظام کو لے کر آئے۔ عالمی سطح پر اقوام متحدہ اور عالمی عدالتِ انصاف جیسے ادارے بنائے‘ غلامی کا خاتمہ کیا‘ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بہت سارے اچھے اقدامات کیے۔ انسانیت کو گلوبل سطح پر باہم ملایا۔ ملکوں پر جو قبضے ہوئے تھے‘ ان کو آزادیاں ملیں۔ جی ہاں! ان اچھے اقدامات کے ساتھ ساتھ تضادات بھی موجود رہے جن میں اہم ترین متضاد رویہ اہلِ فلسطین اور اہلِ کشمیر کے ساتھ روا رکھا گیا۔ اہلِ غزہ پر گزشتہ سات ماہ سے اسرائیل کی فوج اور فضائیہ نے ظلم کے جو پہاڑ توڑے ہیں‘ انہوں نے انسانیت کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔چنانچہ امریکہ کی تمام یونیورسٹیوں اور کالجز کے طلبہ و طالبات اب میدان میں ہیں۔وہ پُرامن احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل کو ظلم سے روکا جائے‘ اسرائیل کو اسلحہ نہ دیا جائے کیونکہ یہ اسلحہ نہتے لوگوں پر‘ عورتوں اور بچوں پر استعمال ہو رہا ہے۔ امریکی عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ جنگوں میں ضائع نہ کیا جائے۔ اس پر حکمرانوں نے جمہوری انداز میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے کے بجائے طلبہ و طالبات پر تشدد شروع کر دیاہے۔ اس سے یورپی ملکوں کے طلبہ و طالبات بھی میدان میں آ گئے ہیں۔ پاکستان میں بھی پنجاب یونیورسٹی‘ کراچی یونیورسٹی اور متعدد دیگر تعلیمی ادارے امریکہ اور یورپ کے طلبہ و طالبات اور اہلِ غزہ سے یکجہتی کے لیے مظاہرے کرنے لگ گئے ہیں۔ دنیا بھر کے تعلیمی ادارے اہلِ غزہ پر ظلم کے خلاف ایک ہو چکے ہیں۔ دنیا اب نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ عالمی حکمرانی کو سوچنا چاہئے کہ جس طرح کائنات کے یکتا خالق کو مانے بغیر سائنس کی گتھیاں حل نہیں ہوں گی‘ اسی طرح اللہ واحد کی ساری انسانی مخلوق کے حقوق کے لیے ایک پیمانہ بنائے بغیر امن اور سکون نہ مل سکے گا۔اس حقیقت کو جس قدر جلد جان کر عدل کے ساتھ آگے بڑھا جائے گا‘ اتنا ہی بہتر ہو گا۔ وگرنہ دنیا بے چین اور ہمیشہ جنگ کے دہانے پر رہے گی۔