آج ایک پاکستانی نژاد برطانوی ایم پی کا ٹویٹ میری نظر سے گزرا جس میں وہاں ہونے والے ایک سیمینار کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ اس سیمینار یا مباحثے کا موضوع یہ تھا کہ برطانیہ میں جنوب مشرقی ایشیائی کمیونٹی کے خلاف نسلی امتیاز اور نفرت میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔برطانوی اور یورپی لوگوں کے دلوں میں نفرت بڑھ رہی ہے۔ وہ اب باہر سے آنے والوں خصوصاً ایشیائی لوگوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ میں خود رپورٹنگ کے لیے لندن میں رہا ہوں۔ مجھے اندازہ ہے کہ جس بات کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اس کا بیک گراؤنڈ کیا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس میں قصور وار کون ہے؟ کیا صرف برطانوی یا یورپین ایشیائی لوگوں کو پسند نہیں کرتے اور نسلی برتری کا اظہار کرتے ہیں‘ یا کچھ قصور ایشیائی لوگوں کا بھی ہے؟ ویسے تو مجھے اپنی تعریف کرانے کا ایک طریقہ آتا ہے کہ اُن لوگوں کی مذمت کرکے ایشیائی لوگوں کو مظلوم اور سچا ثابت کیا جائے۔
مجھے یاد ہے کہ جب لندن میں انگریزی اخبار کے ساتھ رپورٹنگ کے معاہدے کی میعاد ختم ہونے کے قریب آئی تو معروف ملکی انگریزی جریدے کے مالک نے مجھے فون کرکے کہا تھا کہ آپ وہیں رُک جائیں‘ میں ورک پرمٹ لے دیتا ہوں‘ آپ لندن سے رپورٹنگ کرتے رہیں۔ یہ ستمبر 2007ء کی بات ہے۔ میری بیوی نے بھی کہا کہ بچوں کا فیوچر بن جائے گا۔ شعیب بٹھل‘ صفدر عباس زیدی بھائی اور مظہر بھائی جیسے دوستوں کا بھی بڑا اصرار تھا کہ لندن رُک جاؤ۔ پاکستان میں اُن دنوں لال مسجد آپریشن کے بعد خودکش حملے عروج پر تھے۔ ان حالات میں کوئی بیوقوف یا ملک کی محبت میں گرفتار شخص ہی واپس آنے کا فیصلہ کرتا۔ بیوی نے کہا کہ بچوں کا یہاں مستقبل بن جائے گا لیکن میں نے کہا: جہاں باقی 18 کروڑلوگوں کا مستقبل بنے گا‘ وہیں میرے بچوں کا بھی بن جائے گا۔
لندن سے واپسی کے فیصلے کے پیچھے جہاں ذاتی اور پروفیشنل وجوہات تھیں‘ وہیں مجھے یہ اندازہ بھی ہو گیا تھا کہ آنے والے برسوں میں پاکستانیوں یا یوں کہہ لیں مسلمانوں یا ایشیائی لوگوں کے لیے یہاں مشکلات پیدا ہوں گی۔ اُنہی دنوں لندن کے ایک اخبار میں ایک سروے چھپا تھا جس میں پوچھا گیا تھا کہ کیا مسلمانوں کو یورپ میں شہریت دینی چاہیے؟ یہ سروے پورے یورپ میں ہوا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 63 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو یہاں مت آنے دیں‘ یہ لوگ ہمارے طرزِ زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ میں 2007ء کی بات کررہا ہوں۔ اُس وقت بھی یورپین کی اتنی بڑی تعداد ہمارے خلاف تھی۔ میں ویسے بھی واپسی کا فیصلہ کر چکا تھا لیکن اس سروے کے نتائج نے میرا ارادہ مزید پختہ کر دیا کہ اپنا ملک پاکستان جیسے بھی مسائل کا شکار ہو‘ کسی ایسے پرائے ملک سے ہزار گنا بہتر ہے جہاں آپ کو نفرت بھرے رویے کا سامنا کرنا پڑے۔ ایک دفعہ صفدر بھائی اور میں بس میں سوار ہوئے تو بس میں سوار ٹین ایجر لڑکے لڑکیوں نے ہمیں دیکھ کر منفی کمنٹس دیے‘ ہمیں بہت عجیب محسوس ہوا۔ میں نے زندگی میں کسی انسان سے رنگ‘ زبان اور نسل کی بنیاد پر نفرت کا سوچا تک نہیں تھا۔ ہم دونوں بس سے اُترے اور کافی دیر تک ایک دوسرے سے نظریں ملائے بغیر خاموشی سے پیدل چلتے رہے۔ میں اُس ماحول میں خود رہ سکتا تھا نہ اپنے بچوں کو رکھ سکتا تھا۔ اپنے ملک میں آپ سر اٹھا کر چل سکتے ہیں۔ فخر سے اپنے لوگوں میں گھل مل سکتے ہیں۔ آپ کو اپنا آپ مجرم نہیں لگتا۔
شاید آپ کو عجیب لگے لیکن مجھے اُن یورپی لوگوں سے کبھی شکایت نہیں ہوئی جو ہم ایشیائی لوگوں کو اچھا نہیں سمجھتے۔ اس کی وجوہات مجھے لندن میں رہ کر پتا چلیں۔ اگر میں اُن وجوہات کو بتانا شروع کروں تو شاید برطانیہ میں رہنے والے پاکستانی ناراض ہو جائیں۔ ہم میں سے اکثر نے یورپ جا کر ایسے کام کیے جس سے گوروں کی ہمارے بارے منفی رائے بنی۔ یورپین کا سارا سسٹم اعتماد پر چلتا ہے اور ہم نے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ ہم خوش ہوئے کہ گورے بے وقوف ہیں‘ ان کو جو کہو وہ اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ ان کے سامنے آپ کو قسم نہیں اُٹھانی پڑتی۔ آپ کہہ دیں کہ میرا پانچ سو یا ہزار پاؤنڈز کا فون چوری یا گم ہوگیا ہے تو وہ آپ کو انشورنس کے نام پر نیا دے دیں گے۔ حالانکہ آپ اپنا فون پہلے ہی کسی بھائی یا دوست کو پاکستان بھیج چکے ہوں گے۔ ایسے انشورنس فراڈ تو بڑی نارمل سی بات ہیں۔ مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان‘ جس کا باپ کبھی کالج کا پرنسپل رہا تھا‘ وہاں انشورنس کمپنی میں کام کرتا تھا۔ اُس نے مجھے آفر کی کہ وہ مجھے دس ہزار پاؤنڈز دلوا سکتا ہے اگر میں اس کی دی ہوئی گاڑی کسی اور گاڑی کے ساتھ ٹکرا دوں۔ دوسری گاڑی بھی اس کے اپنے دوست کی ہو گی۔ وہ انشورنس دستاویزات میں چکر چلا کر 20‘ 30ہزار پاؤنڈز نکلوا لے گا۔ میں حیرت اور صدمے سے اس نوجوان کو دیکھتا رہ گیا جس کا باپ کالج پرنسپل تھا۔ پاکستان آنے سے پہلے ان دونوں میاں بیوی نے مختلف بینکوں کے کریڈٹ کارڈز پر ہزاروں پاؤنڈز نکلوائے اور پاکستان بھاگ آئے۔ پھر یہاں سے کینیڈا نکل گئے اور آج کل وہاں سسٹم کو ٹیکہ لگا رہے ہوں گے۔
یورپ میں اکثر پاکستانیوں کو بچے جوان ہوتے ہی اپنے ملک کی یاد ستانے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں نہ وہ وہاں رہ سکتے ہیں نہ واپس آسکتے ہیں۔ پھر وہ وہاں شریعت نافذ کرنے کی تحریک شروع کر دیتے ہیں۔ جب وہ خود کلب یا بارز میں کام کرتے ہیں تو انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کیونکہ قدم جمانے ہوتے ہیں۔ جونہی قدم جم جاتے ہیں تو انہیں یورپی معاشرے میں سب برائیاں نظر آنے لگ جاتی ہیں۔ اور سنیں‘ ایک نوجوان وہاں سٹوڈنٹ ویزے پر گیا تھا اور بینک سے مورگیج پر فلیٹ لے کر رہ رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ بینک نے کیسے سٹوڈنٹ ویزے پر اسے قرضہ دے دیا؟ وہ ہنس کر بولا کہ کسی سے ویزہ سٹیٹس تبدیل کرایا تھا‘ پانچ یا دس ہزار پاؤنڈز دیے تھے۔ مجھے کہا کہ آپ بھی دس ہزار پاؤنڈز دیں‘ آپ کا بھی ویزہ سٹیٹس تبدیل کرا دیتے ہیں۔ کچھ ہی خوش نصیب ہوں گے جو وہاں ان خرابیوں سے دور رہتے ہوں گے۔ یقینا وہاں بہت اچھے پاکستانی یا ایشیائی لوگ بھی ہیں۔ ایک دفعہ لندن کے ایک بڑے عدالتی اٹارنی نے پاکستانیوں بارے کچھ منفی ریمارکس دیے تو شور مچ گیا تھا۔ آخر اس اٹارنی کو معذرت کرنا پڑی تھی۔ لیکن کیا ہوا۔ کیا ہم لوگوں نے اپنا رویہ بدلا؟ ہم نے ان معاشروں کے ساتھ خود کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی؟ اگر ہم ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں اتنی محنت اور مشکلات کا سامنا کرکے برطانیہ یا یورپ گئے تھے تو ہم نے ان معاشروں میں ایسا کیا کام کیا کہ وہ لوگ ہم سے نفرت کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ کہیں ہم سے بھی غلطی ہوئی ہے یا سارا قصور گوروں ہی کا ہے جو ہر وہ علاقہ چھوڑ جاتے ہیں جہاں ایشیائی یا پاکستانی گھر لے لیں۔ برطانیہ تو وہ ملک تھا جہاں ایک عام مزدور کا بچہ بھی برطانیہ کے وزیراعظم یا وزیروں کے بچوں کے ساتھ پڑھ سکتا ہے۔ اگر برطانوی معاشرے کو کوئی مسئلہ ہوتا تو وہ عرب ممالک کی طرز پر کبھی پاکستانیوں کو شہریت نہ دیتے اور نہ امیگرنٹس کے بچے اپنے بچوں کے ساتھ پڑھاتے۔
کہیں تو ہم سے بھی تو غلطیاں ہوئی ہیں کہ آج برطانیہ میں ہمارے خلاف نفرت بڑھ گئی ہے۔ اگر ہم اس معاشرے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے تو واپس لوٹ آتے۔ وہ ان کا ملک ہے‘ وہ جیسے چاہیں رہیں‘ انہوں نے کبھی ہم لوگوں کو اپنی طرح بنانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ بس اتنا کہتے ہیں کہ تم جو چاہو مرضی کرو لیکن ہمارے طرزِ زندگی کو بدلنے کی کوشش نہ کرو۔ ہم نے کہا: نہیں‘ ہم تمہیں بھی بدلیں گے۔ اب بدلنے کا کچھ نہ کچھ نتیجہ تونکلنا ہی تھا۔ جو اَب پاکستان چھوڑ کر یورپ جا رہے ہیں‘ وہ بھی بہت جلد جان لیں گے کہ پاکستان جیسا ملک دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔