امریکہ کی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے حق میں طلبہ کے مظاہرے امریکہ کے طول و عرض میں پھیل گئے ہیں۔ طاقت کے استعمال اور گرفتاریوں کے ذریعے طلبہ کی اس احتجاجی لہر کو دبانے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ احتجاجی مظاہروں کا یہ سلسلہ نہ صرف امریکہ کے مشرقی ساحل سے مغربی ساحل تک پھیل چکا ہے بلکہ اب اس کے اثرات یورپ اور آسٹریلیا پر بھی پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں فرانس کی یونیورسٹی آف پیرس کے طلبہ نے بھی کیمپس پر قبضہ کر کے وہاں فلسطین کا جھنڈا لہرا دیا۔ تقریباً چھ دہائیاں قبل امریکہ میں طلبہ کی اسی قسم کی احتجاجی تحریک نے اس وقت کی امریکی حکومت کو ویتنام میں جنگ بند کرنے اور فوجوں کے انخلا پر مجبور کر دیا تھا۔ کیا طلبہ کی موجودہ تحریک بھی ویتنام کی طرح غزہ میں اسرائیلی جنگ بند کرنے پر منتج ہوگی؟ اس سوال کے ابھرنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ طلبہ کی یہ تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے۔ اس کی ابتدا جنوری میں یونیورسٹی آف کولمبیا (نیویارک) سے ہوئی تھی مگر اب یہ تحریک ہارورڈ سمیت دیگر یونیورسٹیوں تک پھیل گئی ہے۔ احتجاج کرنے والے طلبہ کی طرف سے اپنی یونیورسٹیوں سے ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جو غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے فائدہ اٹھا رہی ہیں لیکن اس تحریک کے پلیٹ فارم سے آگے چل کر اسرائیل کے لیے امریکی اسلحے کی ترسیل بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی کانگرس کے ایوانِ نمائندگان کے سپیکر مائک جانسن نے ایک بیان میں دھمکی دی ہے کہ اگر ان مظاہروں پر جلد قابو نہ پایا گیا تو نیشنل گارڈز کو بلانا پڑے گا۔ نیشنل گارڈز کا نام لینے سے ویتنام جنگ کے ایک خون ریز واقعے کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جب نیشنل گارڈز کی فائرنگ سے کینٹ (Kent) سٹیٹ یونیورسٹی کے چھ طلبہ ہلاک اور بیسیوں زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے بعد طلبہ کی احتجاجی تحریک میں اتنی تیزی آئی کہ نکسن انتظامیہ کو شمالی ویتنام کے ساتھ مذاکرات کر کے بعد 1973ء میں ویتنام میں جنگ بندی اور امریکی افواج کو وہاں سے نکالنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ اگرچہ غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے بے دریغ قتل کے خلاف تحریک کے مراکز اس دفعہ بھی امریکہ کی یونیورسٹیاں ہیں اور گزشتہ چند ہفتوں میں اس تحریک نے 40 کے قریب یونیورسٹیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے والی یہ تحریک امریکہ سے نکل کر اب یورپ اور آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں تک پھیل گئی ہے مگر اس کے مقابلے میں ویتنام جنگ کے خلاف امریکی یونیورسٹیوں کے طلبہ کی تحریک اپنے سیاق و سباق‘ نظریے اور مقاصد کے اعتبار سے مختلف تھی۔
جنوب مشرقی ایشیا کے خطہ ہند چینی (Indo-china) کا ملک ویتنام دوسری عالمی جنگ سے پہلے فرانس کے نوآبادی تھا۔ جنگ کے دوران اس پر جاپان نے قبضہ کر لیا۔ جاپان کی شکست اور ہتھیار ڈالنے کے بعد فرانس نے اس پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر ہوچی منہ کی قیادت میں ویتنامیوں نے سخت مزاحمت کی۔ 1954ء میں ڈین بن فو کی مشہور لڑائی میں فرانسیسیوں نے عبرتناک شکست کے بعد ویتنام سے نکل جانے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے جنیوا میں چار فریقی (فرانس‘ ویتنام نیشنل لبریشن فرنٹ (ویتنام)‘ چین اور امریکہ) مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات میں ویتنام کو دو حصوں‘ شمالی اور جنوبی ویتنام میں تقسیم کر دیا گیا۔ شمالی حصے میں ہوچی منہ کی قیادت میں کمیونسٹ حکومت قائم کر دی گئی اور جنوبی حصے کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے انتخابات کے ذریعے عوام کی رائے عامہ معلوم کرنے کا معاہدہ ہوا مگر امریکہ‘ جس نے فرانس کی جگہ لے لی تھی‘ انتخابات کے وعدے سے مکر گیا اور اس کی بجائے جنوبی ویتنام کی کٹھ پتلی حکومت کو مالی اور فوجی امداد دے کر مضبوط بنانے کی کوشش کرنا شروع کر دی۔ مقصد یہ تھا کہ کوریا کی طرح ویتنام کی بھی دو حصوں میں تقسیم کو مستقل بنا دیا جائے مگر جنوبی ویتنام کے عوام نے ہتھیار اٹھا لیے اور شمالی ویتنام اور چین کے مدد سے جنوبی ویتنام کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ 1965ء میں جب امریکہ نے صدر نگوڈن ڈائم کی حکومت کو بچانے کے لیے اپنی فوجیں جنوبی ویتنام میں داخل کیں تو یہی وقت تھا جب ویتنام میں مداخلت کے خلاف امریکہ میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ اس تحریک میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے مگر لیڈنگ رول طلبہ کا تھا جو نہ صرف ویتنام میں امریکی مداخلت بلکہ امریکہ کے سیاسی‘ سماجی اور معاشی نظام کو غیر منصفانہ قرار دے کر اس میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
دراصل دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کی خارجہ پالیسی خصوصاً کمیونزم کی مخالفت کے نام پر سویت یونین اور چین کے خلاف سرد جنگ کو امریکی معاشرے‘ بالخصوص دانشوروں‘ صحافیوں اور یونیورسٹی پروفیسرز میں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے معاشرے میں امیر اور غریب میں فرق جس تیزی سے بڑھ رہا تھا اس سے امریکی معاشرے میں سخت بے چینی پائی جاتی تھی۔ دیگر الفاظ میں علم و ادب‘ فلسفہ‘ آزادانہ بحث و مباحثہ اور لبرل سوچ کے مراکز امریکی یونیورسٹیوں میں ویتنام میں امریکی مداخلت کے آغاز سے پہلے ہی سچ‘ انصاف اور آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کا مسکن بن چکے تھے۔جوں جوں ویتنام کی جنگ میں تیزی آتی گئی اور امریکی افواج کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا‘ امریکہ میں جنگ کے خلاف تحریک زور پکڑتی گئی اور اس میں صرف طلبہ ہی نہیں حصہ لے رہے تھے بلکہ عام امریکی بھی اسے ختم کرنے اور امریکی فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
1967ء میں ویتنام میں لڑنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب پہنچ چکی تھی اور ہر ہفتے لگ بھگ 300 امریکی فوجیوں کی لاشیں واپس پہنچ رہی تھیں۔ اس پر امریکہ میں سخت عوامی ردعمل پیدا ہوا اور واشنگٹن‘ نیویارک اور دیگر بڑے شہروں میں لاکھوں امریکیوں نے ویتنام کی جنگ کو ختم کرنے اور امریکی فوجیوں کو واپس لانے کے لیے احتجاجی جلسے شروع کر دیے۔ صرف واشنگٹن میں پانچ لاکھ سے زائد افراد نے اپنے مطالبات کی منظوری کے حق میں احتجاج کیا۔ اس وقت بھی امریکی انتظامیہ‘ آج کی طرح جنگ جاری رکھنے پر مصر تھی لیکن بالآخر اسے عوامی رائے کے سامنے جھکنا پڑا۔ امریکیوں کی فوج میں جبری بھرتی کا سلسلہ بند کرنا پڑا اور 1974ء میں ویتنام سے امریکی فوجیوں کا انخلا مکمل ہو گیا۔
آج بھی امریکی صدر نے غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینیوں کے قتل عام کو بند کرنے کا مطالبہ کرنے والے احتجاجی طلبہ کو یہود مخالف کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ایسے عناصر کیلئے کوئی جگہ نہیں مگر دنیا جانتی ہے کہ اس تحریک کا یہود دشمنی سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس احتجاجی تحریک میں یہودی طلبہ خود بھی حصہ لے رہے ہیں۔ اس وقت یہ تحریک اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ اگر غزہ میں جنگ بندی اور مستقل امن کے قیام کیلئے کوئی معاہدہ نہ ہوا تو ویتنام تحریک کی طرح اس میں بھی تیزی آ سکتی ہے اور جس طرح ویتنام جنگ کے خلاف تحریک نے عالمی سیاست کا رخ تبدیل کر کے رکھ دیا تھا‘ فلسطینیوں کے حق میں امریکی طلبہ کی یہ تحریک بھی نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی سطح پر ایک نئے دور کے آغاز کا سبب بن سکتی ہے۔