بلاول پی آئی اے،سٹیل ملز کی نجکاری کے مخالف:ایم کیو ایم ن لیگ سے ناراض،پیپلز پارٹی کیساتھ چلنے کا فیصلہ

بلاول پی آئی اے،سٹیل ملز کی نجکاری کے مخالف:ایم کیو ایم ن لیگ سے ناراض،پیپلز پارٹی کیساتھ چلنے کا فیصلہ

کراچی (سٹاف رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی آئی اے اور سٹیل ملز سمیت دیگر اداروں کی نجکاری کرنے کے بجائے وفاقی حکومت سے انہیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلانے کا مطالبہ کیاہے ۔

کراچی آرٹس کونسل میں یوم مزدور کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیرخزانہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کوپسند کرتے ہیں، ہم انہیں منائیں گے کہ وہ پی آئی اے کی نجکاری نہ کریں اور اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بحال کریں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ سٹیل ملز کی زمین حکومت سندھ کی ملکیت ہے ، حکومت اگرسٹیل ملز بحال نہیں کرسکتی تو حکومت سندھ کے حوالے کرے ہم اسے پی پی موڈ پر چلائیں گے ، ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت سندھ کی مرضی کے بغیر اس ادارے کے بارے میں فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ مؤقف تھا، ہے اور رہے گا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے جو منصوبے ہیں وہ کامیاب ہوئے اور ہم نے انہیں کامیاب بنایا ہے ،ہم وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر وہ پی آئی اے کے بارے میں نجکاری کا سوچ رہے ہیں تو اس سے بہتر یہ ہے کہ وہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کرے ، وہ ان کے کچھ شیئرز ضرور بیچیں اور پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر اس ادارے کی ترقی کا بندوبست کریں، اس کا فائدہ پاکستان، اس کی معیشت کو ہوگا۔بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ یہ ایسی چیز ہے جو ہم کرسکتے ہیں، ہم نے تھر کول میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے وہ کام کیا جس میں صوبائی اور وفاقی حکومتیں ناکام رہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ میری سٹیل ملز کے حوالے سے بھی یہ رائے ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ بیٹھے اور ہم سمجھتے ہیں نجکاری سے بہتر یہ ہے کہ اگر وفاقی حکومت کو سٹیل ملز نہیں چاہیے تو حکومت سندھ خرید لے گی، ہم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت اسے ان سے بہتر چلائیں گے اور وہاں کے مزدوروں کا خیال رکھیں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کو مد نظر رکھ کر تنخواہوں میں اضافہ ہونا چاہئے ، امید ہے وفاق، سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں تنخواہوں میں اضافہ کریں گی۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ 2008 سے 2013 تک قومی اسمبلی نے جتنے قوانین مزدوروں کے حق میں منظور کرائے اس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی،اس دور میں مزدور کے حقوق میں اضافہ ہوا، حکومت سندھ نے بھی مزدوروں کے حق میں قوانین منظور کیے ہیں، اس معاملے میں کوئی صوبہ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا، گھریلو ملازمین کو بھی حقوق دلانے کے لیے اقدامات کیے ،ای او بی آئی نظام اس کی مثال ہے ، ای او بی آئی کا نظام تمام صوبوں کو منتقل کیا جائے ۔بلاول بھٹو نے کہاکہ مزدوروں کے خون پسینے سے ہی معیشت چلتی ہے ، اشرافیہ جو پیسے کماتی ہے وہ مزدوروں کی وجہ سے ہے ، آج مزدوروں کے ساتھ مزدوروں کا دن منارہا ہوں،مزدوروں کو محنت کا صلہ ملنا چاہئے ، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ مزدوروں کے لیے جدوجہد کی، مزدور کا حق آئین کے آرٹیکل 3 میں بیان کیا گیا ہے ،اس آئین کے تحت مزدوروں کو یونین سازی کا بھی حق ملا۔چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ بھٹو شہید کے دور میں مزدوروں کو حق ملا، ہماری حکومت نے مزدور کی پنشن میں اضافہ کیا، ہم نے مزدوروں کے لیے 2015 میں بل پاس کرایا، چائلڈ لیبر کے حوالے سے بھی قانون پاس کرایا۔

کراچی(محمد اشھد) اتحادی حکومت قائم ہونے کے دو ماہ میں ہی سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات سامنے آنا شروع ہوگئے ۔پاکستان مسلم لیگ ن کے روئیے پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ناراض ہوگئی اور پیپلزپارٹی کیساتھ چلنے کا فیصلہ کرلیاہے ۔تفصیلات کے مطابق بدھ کے روز ملکی سیاست میں بڑی پیشرفت اس وقت نظر آئی جب خالد مقبول صدیقی، مصطفی کمال اور فاروق ستار پر مشتمل ایم کیو ایم کا تین رکنی وفد وزیر اعلیٰ ہاؤس میں صدر پاکستان آصف علی زرداری سے ملاقات کے لئے پہنچا۔وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ اور وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی بھی اس موقع پر موجودتھے ۔ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم مسلم لیگ ن کے روئیے پر تذبذب کا شکار ہے ، ایم کیو ایم میں اس بات پر گفتگو ہو رہی ہے کہ الیکشن سے قبل اور بعد میں بھی مسلم لیگ ن کو ہر فورم پر سپورٹ کیا گیا لیکن بدلے میں ایم کیو ایم سے ویسی دوستی نہیں نبھائی گئی۔ وزیر اعظم کے انتخاب سے لیکر سپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب تک ایم کیو ایم مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑی ہوئی لیکن بدلے میں قومی اسمبلی میں کم سیٹیں رکھنے والی جماعت کو تو مسلم لیگ ن نے \\\"اون\\\"کیا لیکن ایم کیو ایم کو \\\"اگنور\\\"کردیا اور یہی معاملہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے درمیان دوری کی وجہ بنا ہے ۔

ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم میں وفاقی وزارت رکھنے یہ نہ رکھنے کے حوالے سے گفتگو جاری ہے ۔ مسلم لیگ ن کے روئیے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پہلے مرحلے میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان رابطے ہوئے ہیں اور اب سندھ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مختلف معاملات پر ایک پیج پر نظر آرہی ہیں۔ صدر مملکت سے ہونے والی ملاقات میں سیاسی مستقبل اور آئندہ حکمت عملی پر بھی بات ہوئی۔ دونوں جماعتوں کے درمیان سندھ کی سطح پر بھی کوآرڈی نیشن نظر آرہی ہے اوردونوں جانب سے قائمہ کمیٹیوں کا معاملہ بھی خوش اسلوبی سے حل کئے جانے کا عندیہ دیاگیا ہے ۔دریں اثنااعلامئے کے مطابق ایم کیو ایم کے وفد نے خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں صدر آصف علی زرداری سے وزیراعلیٰ ہاؤس میں ملاقات کی اور انہیں دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔صدر نے ان کا شکریہ ادا کیا۔اس موقع پرکراچی میں اسٹریٹ کرائمز کے معاملے پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ صدر نے یقین دلایا کہ وہ ذاتی طور پر صورتحال کی نگرانی کریں گے اور اسے بہتر کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ یہ اہم مسئلہ ہے ، اس لیے میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں امن و امان کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے آیا ہوں۔ترجمان ایم کیو ایم کے مطابق ملاقات میں ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے پر بھی زور دیا گیا۔

وفد نے سندھ خصوصاً کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر صدر مملکت سے شدید تشویش کا اظہار کیا اوران سے کراچی میں امن و امان کی بحالی کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کی درخواست بھی کی۔علاوہ ازیں صدر مملکت آصف علی زرداری نے سندھ میں امن و امان برقرار رکھنے میں ناکامی پر متعلقہ افسران کی تبدیلی اورکراچی سیف سٹی پروجیکٹ کو جنگی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ہدایات کے ساتھ کچے کے ڈاکوؤں اور ڈرگ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے ۔ وزیراعلیٰ ہاؤس میں سندھ میں امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی، وزیر داخلہ سندھ ضیا لنجار، آئی جی غلام نبی میمن، ڈی جی رینجرز و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ڈی جی رینجرز اور آئی جی پولیس نے کچے میں آپریشن وسٹریٹ کرائمز کی صورتحال پر بریفنگ دی۔وزیراعلیٰ نے بتایا کہ کراچی میں کرائم کی وارداتوں میں کمی ہوئی ہے ، 2014ء میں کراچی عالمی کرائم انڈیکس میں چھٹے نمبر پر تھا جو 2024ء میں 82 ویں نمبر پر آ گیا ہے ، شکاگو، نئی دہلی، تہران میں کرائم انڈیکس کراچی سے زیادہ ہے ۔آصف زرداری نے کہا کہ دیگر ملکوں میں سٹریٹ کرائم ہے تو ان کے اسباب ہیں، کراچی میں سٹریٹ کرائم کا کوئی خاص سبب نہیں، گاڑیاں اور موبائل چوری ہونے کے بعد کہاں جاتے ہیں؟، پولیس کو معلوم ہونا چاہئے ۔انہوں نے چوری کے سامان کی خریدو فروخت کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی ہدایت کی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں