کسانوں کا احتجاج ہنگامی صورتحال پیدا کرسکتا،24گھنٹے اہم

کسانوں کا احتجاج ہنگامی صورتحال پیدا کرسکتا،24گھنٹے اہم

(تجزیہ:سلمان غنی) حکومت کی جانب سے 18لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کے اعلان کے باوجود کاشتکاروں کی پریشانی دور نہیں ہو پا رہی اور کسان تنظیمیں کل جمعہ کے روز اپنے احتجاج کے اعلان پر مصر ہیں اور لگتا ہے۔

 کہ وہ حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود پسپائی کیلئے تیار نہیں جن کا کہنا ہے کہ 44لاکھ ٹن گندم کی موجودگی کے باوجود گندم کی درآمد کا عمل دراصل مافیاز کو اکاموڈیٹ کرنے اور کسان کی سال بھر کی کمائی کو بے وقعت بنانے کے مترادف ہے وفاقی حکومت تو پاسکو کے ذریعے گندم کی خریداری میں چار لاکھ ٹن مزید خریدنے کے اعلانات کرتی نظر آ رہی ہے مگر پنجاب کے مختلف علاقوں میں گندم کی خریداری کون کرے گا ۔پنجاب حکومت کا موقف ہے کہ ہمارے گوداموں میں 26لاکھ ٹن کا سٹاک موجود ہے اور ہمارے پاس نہ تو گندم ذخیرہ کرنے کے پیسے ہیں اور نہ ہی مزید گندم رکھنے کیلئے جگہ ہے ۔آنے والے 24گھنٹوں میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوتی تو کاشتکاروں کا یہ احتجاج غیر معمولی اور ہنگامی صورتحال ضرور طاری کرے گا اور اگر انتظامی مشینری مذکورہ احتجاجی عمل کو قابو پانے کیلئے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے تو اس سے حکومت پر دباؤ آئے گا اور بالآخر کسانوں سے مذاکرات ہی کرنا پڑیں گے ایک ایسی صورتحال میں جس میں پہلے سے سیاسی محاذ پر تناؤ ا ور ٹکراؤ ہے وکلا اور دیگر طبقات احتجاجی عمل پر گامزن ہیں اگر کاشتکار بھی احتجاج پر نکلتے ہیں تو اس سے حکومت کیلئے اچھا پیغام نہیں ہوگا، زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کے پاس 25لاکھ ٹن گندم ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے تو اس کے بعد اضافی گندم کیلئے سرکاری جگہوں یا کرایہ کی جگہوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں