ہنیہ کی شہادت، ایران کا ایئرڈیفنس سسٹم کیوں الرٹ نہ تھا؟

ہنیہ کی شہادت، ایران کا ایئرڈیفنس سسٹم کیوں الرٹ نہ تھا؟

(تجزیہ: سلمان غنی) ایرانی سرزمین پر حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کے عمل نے عالم اسلام کو ہلا کر رکھ دیا ،قتل کی سفاک واردات ظاہر کرتی ہے کہ دشمن بوکھلاہٹ کا شکار تھا اور سمجھتا تھا کہ اسماہیل ہنیہ کو راستے سے ہٹائے بغیر اس کی جان نہیں چھوٹ پائے گی مگر آزادی کی تحریکوں پر نظر دوڑائی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی قربانیاں اور شہادتیں تحریک اور جدوجہد میں نئی روح پھونکنے کا باعث بنتی ہے ۔

 تاہم ایرانی سرزمین پر اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ نے کئی سوالات کھڑے کردئیے ہیں، ایرانی حکومت کو اس امر کا جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ انہوں نے اپنے معزز مہمان کیلئے کیا حفاظتی اقدامات کررکھے تھے اور جس علاقہ میں ان کا قیام تھا اس کا بندوبست کس کے ذمہ تھا ،اس کا کھوج لگانا ضروری ہے ،مذکورہ سانحہ سے ایران کے دفاعی نظام اور صلاحیت پر سوالات تو کھڑے ہونگے ، اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی ٹائمنگ اور اس کیلئے جگہ کاتعین بہت اہم ہے اور اس حوالہ سے جو پیغام دینا مقصود تھا ایرانی قیادت اور عالم اسلام اسے ضرور سمجھے ،اسرائیل نے ایک حملے کے ذریعے دو اہداف حاصل کئے ہیں اولاً حماس کے اہم ترین لیڈر کو ٹارگٹ کیا اور دوم ایران کو باور کرادیا کہ اس کا دارالحکومت اسرائیلی میزائلوں کی زد میں ہے اور یہ کہ اسرائیل جہاں چاہتا ہے اپنے ہدف کو ٹارگٹ کرسکتا ہے ،اب تک بڑا سوال یہی ہے کہ میزائل کہاں سے داغا گیا ۔

کیا یہ ایران کے اندر سے ہوا یا باہر سے ، یہ دونوں حوالے سے خطرناک ہے اور پھر یہ کہ ریاستی مہمانوں کی قیام گاہ ہمیشہ خفیہ ہوتی ہے ،اس کے لئے غیر معمولی حفاظتی اقدامات ہوتے ہیں اور خصوصاً ایک آزادی کی تحریک کے بڑے لیڈر کے حفاظتی اقدامات کو غیر معمولی ہونا چاہئے تھا ، آخر دشمن کو کیسے معلوم ہوا کہ اسماعیل ہنیہ کہاں موجود ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ میزائل داغا گیا تو ایران کا ایئر ڈیفنس سسٹم کیونکر الرٹ نہ تھا ۔اسماعیل ہنیہ کو ٹارگٹ کرنے کا عمل محض ایک واقعہ یا سانحہ نہیں یہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے اور اس کا سد باب اب صرف اسی صورت ممکن ہے کہ عالم اسلام ملکر کوئی مربوط حکمت عملی اختیار کرے ایسا نہ ہوا تو عالم اسلام کا کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا، اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد یہ سوال بھی پھر سے اٹھے گا کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی موت بھی کیامحض حادثہ تھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں