فلسطین کے سابق وزیراعظم اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران میں ایک قاتلانہ حملے میں شہید کر دیا گیا۔ وہ ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے ایران میں موجود تھے۔ حماس نے ان کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں یہودی ایجنٹوں نے نشانہ بنایا‘ جس کا بدلہ لیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس کے سربراہ کو تہران میں ان کی رہائش گاہ پر رات دو بجے گائیڈڈ میزائل کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی حکام نے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات جلد سامنے لائی جائیں گی۔
یاد رہے کہ رواں سال عیدالفطر کے موقع پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے بھی شہید ہو گئے تھے۔ ان کے تینوں بیٹے ہازم‘ محمد اور عامر اپنی گاڑی میں جا رہے تھے کہ ان کی گاڑی پر اسرائیل نے بمباری کر دی تھی۔ اس حملے میں اسماعیل ہنیہ کے بیٹوں کے علاوہ تین پوتیاں اور ایک پوتا بھی شہید ہوئے تھے۔ بعد ازاں جون میں اسرائیل کے غزہ پر فضائی حملے میں اسماعیل ہنیہ کی بہن زاہر ہنیہ سمیت خاندان کے 10افراد شہید ہو گئے تھے‘ لیکن عزم و ہمت کے پیکر اسماعیل ہنیہ نے ان شہادتوں کو فلسطین میں دوسرے مسلمانوں کی شہادتوں (جو اَب 40ہزار کے ہندسے کو چھونے والی ہیں‘ اور جو 1948ء کے نکبہ (نکبہ 1948ء کے فلسطینی خروج یا فلسطینی ہجرت کو کہا جاتا ہے جب اسرائیل نے سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا تھا) کے بعد شہادتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے) جیسی شہادتیں قرار دیا اور کہا کہ فلسطینی قوم کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔
ہر غیرملکی حملے اور غیرملکی قبضے پر ردِ عمل کی طرح فلسطین کی اسرائیل کے خلاف تحریکِ مزاحمت بھی دو حصوں میں بٹی نظر آتی ہے۔ حماس‘ جس کی بنیاد 1987ء میں شیخ احمد یٰسین نے رکھی تھی‘ اسرائیل کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی داعی ہے۔ حماس کے بھی آگے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ معاشرتی امور کے لیے کام کرتا ہے جبکہ دوسرا فلسطین کی حفاظت پر مامور ہے اور بیرونی جارحیت (اسرائیل) کے خلاف طاقت کے استعمال پر یقین رکھتا ہے۔ حماس کی ایک شاخ اُردن میں قائم تھی۔ شاہ حسین کے دور میں یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن ان کے بعد شاہ عبداللہ نے حماس کو برداشت نہ کیا اور ان کے رہنماؤں کو قطر جلا وطن کر دیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ بھی قطر ہی میں رہائش پذیر تھے اور وہیں سے حماس کے معاملات چلا رہے تھے۔
حماس کے برعکس الفتح تنظیم‘ جس کی بنیاد یاسر عرفات نے رکھی تھی‘ مسئلہ فلسطین کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے موجودہ سربراہ محمود عباس ہیں۔ مؤقف اور نقطہ ہائے نظر میں اختلافات کی وجہ سے حماس اور الفتح اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے خلاف بھی برسرِ پیکار رہی ہیں۔ دونوں تنظیموں میں کئی مسلح جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔ ان دونوں تنظیموں کے ایک دوسرے کے خلاف اقدامات کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل نے اٹھایا جو ہر ایسے اقدام کے بعد خود کو زیادہ محفوظ اور مضبوط محسوس کرتا رہا۔ اکتوبر 2023ء کے بعد سے اسرائیلی حملوں کا سامنا بھی حماس ہی کر رہی ہے‘ الفتح زیادہ تر اس سے لاتعلق نظر آئی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران حماس اور الفتح کے اختلافات دور کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں‘ لیکن سارے اختلافات دور نہیں کیے جا سکے۔ اگر یہ اختلافات دور ہو جاتے اور دونوں تنظیمیں مل کر مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے کام کرتیں تو ممکن ہے آج فلسطین کی صورتحال مختلف ہوتی اور اسرائیل اور اس کے حامی اس قدر دندنا نہ رہے ہوتے۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے حماس کے ایک پُرعزم دور کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہی اسرائیل فلسطین جنگ کے مستقبل کے سوال کا جواب مضمر ہے۔ حماس کے سینئر ترجمان سامی ابو زہری نے خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل سے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا‘ اب مقبوضہ بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لیے 'کھلی جنگ‘ چھڑے گی‘ اور حماس اس کی ہر قیمت چکانے کے لیے تیار ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد بھی خطے کی عرب ریاستوں کی پالیسی میں کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آئے گی۔ انہیں شاید یہ بھی یاد نہ ہو کہ سات اکتوبر 2023ء کو حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد قطر سے الجزیرہ ٹی وی پر اپنے اعلان میں اسماعیل ہنیہ نے کہا تھا کہ عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ معاہدے اس تنازع کو ختم نہیں کر سکیں گے۔
1948ء میں فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے قیام کے اعلان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فلسطین اسرائیل تنازع کے بارے میں خطے کی عرب ریاستیں پہلے پہل تو خاصی سرگرم نظر آئیں‘ حتیٰ کہ انہوں نے اسرائیل کے خلاف جنگیں بھی کیں لیکن پھر ان سب نے اس بھاری پتھر کو چوم کر ایک طرف رکھ دیا اور اپنے اپنے معاملات میں مگن ہو گئیں‘ حالانکہ اس حقیقت کو کسی بھی طور اور کسی بھی حوالے سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل فلسطین تنازع کا جب بھی اور جو بھی حل نکلا‘ مشرقِ وسطیٰ کی عرب دنیا اس کے (منفی یا مثبت) اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گی۔ مذہبی اور تاریخی حوالوں سے مسلمانوں کے یہود و نصاریٰ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا‘ لیکن اگر ہم ماضی بعید کی تاریخ کو نہ بھی کھنگالیں اور ماضی قریب کے معاملات‘ خصوصاً گزشتہ سوا صدی کے ایشوز‘ حالات و واقعات اور عالمی معاملات پر ہی ایک نظر ڈال لیں تو واضح ہو جائے گا کہ کون کہاں کھڑا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ جب سے حماس اسرائیل تنازع شروع ہوا ہے‘ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے مسلسل اسرائیل کی حمایت اور ہر طرح سے مدد کی جا رہی ہے۔ وہ جو حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں‘ انہیں اسرائیل کے توسیع پسندانہ‘ جارحانہ اور یکطرفہ اقدامات کیوں نظر نہیں آتے؟ انہیں اقوامِ متحدہ کی جانب سے اسرائیل کی جارحیت کے خلاف منظور کی گئی قراردادیں بھی نظر نہیں آتیں‘ اور انہیں شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے پیرامیٹرز کیا تھے اور اب اسرائیل کہاں تک پھیل اور فلسطین کس حد تک سکڑ چکا ہے۔ حالات و واقعات کو وقت کی گردش کے اُلٹ چلانے کی کوششیں کرنے والے سب کو نظر بھی آ رہے ہیں اور ان کے مستقبل کے عزائم اور ارادے کیا ہو سکتے ہیں‘ یہ بھی اب نوشتۂ دیوار ہیں۔ اس کے باوجود کوئی ریت میں سر دے کر خود کو محفوظ سمجھنا چاہتا ہے تو اس کا فیصلہ بھی تغیر پذیر حالات ہی کریں گے۔ اسماعیل ہنیہ یہی سوچ لے کر زندہ رہے اور یہی عزم لے کر شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے کہ وقت کے پہیے کو اُلٹا نہیں چلنے دینا۔ تاریخ انہیں کیا حیثیت اور وقعت دیتی ہے‘ یہ ہم تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت میں اگر کسی کا کوئی کردار ہے تو اس کردار کا فیصلہ بھی تاریخ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اگر قتل (شہادت) میں کسی نے اسرائیل کے ایجنٹ کا کردار ادا کیا ہے تو اس سے بھی تاریخ خود نمٹ لے گی۔