آپکی جماعت نے بڑی گر مجوشی سے آرمی سے متعلق قانون بنایا:جسٹس نعیم کا سلمان راجہ سے مکالمہ

آپکی جماعت نے بڑی گر مجوشی سے آرمی سے متعلق قانون بنایا:جسٹس نعیم کا سلمان راجہ سے مکالمہ

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل میں سزا یافتہ ملزم کے وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل بدھ کو بھی مکمل نہ ہو سکے ، عدالت نے کیس کی سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی۔

جسٹس نعیم الدین افغان نے سزا یافتہ مجرم ارزم جنید کے وکیل سلمان راجا سے مکالمے کے دوران ریمارکس دئیے  کہ آپ کی جماعت نے اپنی حکومت میں بڑی گرمجوشی سے آرمی سے متعلق قانون بنایا تھا۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی، جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ اگر بنیادی حقوق دستیاب نہ ہوں اور کسی ایکٹ کے ساتھ ملا لیا جائے ، تو کیا بنیادی حقوق متاثر ہوں گے ؟سلمان اکرم نے موقف اپنایا کہ آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے ، اس میں کوئی بھی ترمیم ہوئی تو بنیادی حقوق ختم ہو جائیں گے ، قانون کے مطابق جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہونا ضروری ہے ۔جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ اگر آرمڈ فورسز کا کوئی شخص گھر بیٹھے کوئی جرم کرتا ہے تو کیا اس پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو گا؟ سلمان اکرم راجا نے موقف اپنایا کہ مثال کے طور پر پنجاب میں پتنگ اڑانا منع ہے ، اگر کوئی پنجاب میں گھر میں پتنگ اڑاتا ہے تو وہ ملٹری کورٹ میں نہیں جائے گا، اس پر بھی سویلین قانون لاگو ہوگا۔جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ گھریلو مسئلہ ہے ، اگر پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر دوسری شادی کر لی جائے ، تو کیا اسے آرٹیکل تھری میں ڈال کر ملٹری کورٹ بھیجا جائے گا؟ سلمان اکرم نے کہا کہ لیاقت علی کیس میں بھی یہی ہوا، وہاں بھی آرٹیکل تھری کو شامل کیا گیا، جہاں تک بات رہی بنیادی حقوق کی، اس کے دروازے بند نہیں ہوں گے ۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے سلمان اکرم کو مخاطب کرکے کہا کہ ہلکے پھلکے انداز میں کہہ رہا ہوں، برا نہ مانیے گا، آپ کی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ آجکل سیاسی وابستگی بھی ہے ، جب آپ کی سیاسی پارٹی کی حکومت تھی اس وقت آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم کی گئی، اس وقت پارلیمنٹ نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی۔سلمان راجا نے موقف اختیار کیا میں اس وقت پی ٹی آئی کا حصہ نہیں تھا، میں تو ہمیشہ اپوزیشن والی سائیڈ پر رہا۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ٹو ون ڈی کی حیثیت پر ہر مرتبہ سپریم کورٹ جوڈیشل ریویو کیوں کرے ؟ سلمان اکرم نے جواب دیا کہ لیگل فریم ورک تبدیل ہوجائے تو عدالتی نظرثانی کی جا سکتی ہے ۔جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا ٹو ون ڈی کے لیے 1967 میں آرڈیننس لایا گیا، آرڈیننس کی ایک میعاد ہوتی ہے ، کہیں ایسا تو نہیں آرڈیننس میعاد ختم ہونے پر متروک ہو گیا ہو؟ جس پر سلمان اکرم نے جواب دیا کہ میں عدالتی وقفہ کے دوران چیک کر لیتا ہوں۔جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دئیے کہ سول سروس میں کوئی شخص ایسا جرم کرتا ہے تو اسے نوکری سے نکالا جاتا ہے ، سول سروس میں سزا دینے کا اختیار موجود نہیں ہے ، آرمڈ فورسز میں ایک طرف نوکری سے نکالاجاتا ہے تو دوسری طرف سزا بھی دی جاتی ہے ۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اگر کوئی جاسوس پکڑا جاتا ہے تو اس کا ٹرائل کہاں کریں گے ؟ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کو بتانا پڑے گا کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا کس پر ہے ؟ سلمان نے کہا ایسا نہیں کہ ٹو ون ڈی کے بغیر ریاست کا کاروبار نہیں چل سکتا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا اگر کوئی سویلین مڈل مین دشمن ملک کے ورغلانے پر راز ان کے حوالے کر دے تو اسکا ٹرائل کہاں ہوگا؟ سلمان راجا نے موقف اپنایا اس کا ٹرائل آفیشیل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہوگا، آفیشیل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کا مکمل طریقہ کار موجود ہے ، میں اصول اور قانون کے خلاف اپنی مرضی سے توڑ موڑ کر دلائل نہیں دوں گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ چاہے نتائج آپ کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں؟ سلمان نے کہا کہ بے شک، میں آئین کے خلاف کوئی بات نہیں کروں گا، کلبھوش کا کیس آپ کے سامنے ہے ، دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ آئین بنیادی حقوق دے اور کوئی ایک انگلی کے اشارے سے بنیادی حقوق چھین لے ، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کمانڈنگ آفیسر کہے مجھے ارزم جنید چاہیے ، اسے میرے حوالے کرو۔دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ 5 رکنی بینچ نے سیکشن ٹو ڈی ختم کردیا، سیکشن ٹو ڈی ختم ہونے کے بعد جاسوس عناصر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا، آرمی میں سول ملازمین بھی ہوتے ہیں، اگر سول ملازم کی آڑ میں دشمن ملک کے لیے جاسوسی کرے ، ایسے سول ملازم جاسوس کا ٹرائل کہاں ہوگا؟ سلمان اکرم نے جواب دیا آرمی میں موجود سول ملازمین آرمی ایکٹ کے تابع ہوتے ہیں۔دوران سماعت جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا ، کیا ہم آئین کے پابند ہیں یا عدالتی فیصلے کے پابند ہیں؟ سلمان نے جواب دیا سپریم کورٹ فیصلے کا احترام ہے۔

لیکن عدالت کے لیے ضروری نہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا اگر آئین میں تبدیلی ہو جائے تو کیا ہوگا؟وکیل نے جواب دیا پھر تو صورتحال ہی مختلف ہوگی۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہم نے مرکزی فیصلے پر نظرثانی کرنی ہے ، یکسانیت بھی لانی ہے ، تشریح بھی کرنی ہے ، پتہ نہیں اور کیا کیا کرنا ہے ۔سلمان راجا نے موقف اختیار کیا کہ بند دروازوں کے پیچھے شفاف ٹرائل نہیں ہو سکتا، 19ویں صدی والا کورٹ مارشل اب پوری دنیا میں تبدیل ہو چکا ہے ، 2025 میں 1860 والے کورٹ مارشل کی کارروائی کا اطلاق یونیفارم پرسنل پر بھی نہیں ہو سکتا، پتہ نہیں دو سال تک کیا ہوتا رہا، ایک کاغذ تک باہر لے کر جانے کی اجازت نہیں تھی، ضمانت کا حق بھی حاصل نہیں، برطانیہ میں جج ایڈووکیٹ جنرل کی تعیناتی ہائی کورٹ ججز تعیناتی کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ہوتی ہے ۔دوران سماعت اعتزاز احسن نے موقف اختیار کیا کہ ایف بی علی کیس میں ایاز سپرا اور اشتیاق آصف کا وکیل رہا، اس وقت ٹرائل اٹک جیل میں ہوتا تھا، ٹرائل کے بعد ریکارڈ جلا دیا جاتا تھا، جب ٹرائل ختم ہوتا ہماری اٹک قلعہ سے نکلتے وقت مکمل تلاشی لی جاتی تھی، ایک کاغذ تک نہیں لے کر جانے دیا جاتا تھا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اس وقت مارشل لا کا دور تھا، سلمان اکرم نے موقف اختیار کیا مجھے بطور وکیل روزانہ اڈیالہ جیل میں یہی سہنا پڑتا ہے ۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اتنی تلاشی کیوں لی جاتی ہے ؟ وکیل نے جواب دیا کہ میری ٹائی تک کی تلاشی لی جاتی ہے ، وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ مجھ سے تو ایک مرتبہ ٹشو پیپر تک لے لیا گیا تھا۔جسٹس امین الدین خان نے سلمان اکرم سے کہا کہ آپ دلائل اس کیس تک ہی محدود رکھیں، سلمان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ مجھے 10 سال سزا دے دیں اور کہیں آپ کو اپیل کا حق نہیں، کیس کوئی اور سنتا ہے ، فیصلہ کوئی اور جاری کرتا ہے ، دنیا میں کورٹ مارشل کے لیے دو ماڈلز اپنائے گئے ہیں، دنیا میں ٹرائل کے لیے قابل ججز کو بھرتی کیا جاتا ہے ، یہاں کنوکشن ریٹ 95 فیصد ہے ، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ اعتراف کی بنیاد پر سزا ہو جائے ، اعتراف کی بنیاد پر سزا ہمارا ہی انوکھا طریقہ ہے ، دنیا میں پورا نظام بدل کر رکھ دیا گیا ہے ، دنیا میں اوپن ٹرائل کا تصور بھی موجود ہے ۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے ہمارے سامنے جو معاملہ ہے ہم نے اس کے مطابق فیصلہ کرنا ہے ، عدالت نے کیس کی سماعت آج (جمعرات ) تک ملتوی کر دی ۔ آج بھی سلمان اکرم راجا اپنے دلائل جاری رکھیں گے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں