صوبائی ٹیکس نظام :محکمہ خزانہ پنجاب کی رپورٹ پنجاب اسمبلی پیش
لاہور(محمد حسن رضا سے ) پنجاب حکومت نے صوبائی ٹیکس نظام میں کمزوریاں، خطرات اور ناکامیوں بارے رپورٹ جاری کردی، صوبائی ٹیکس نظام بارے محکمہ خزانہ پنجاب نے رپورٹ پنجاب اسمبلی میں پیش کردی، رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پنجاب کا ٹیکس نظام محدود اور غیر متوازن ہے۔
چند مخصوص شعبوں پر انحصار ہے ۔ زیادہ تر ٹیکس وصولی سروس سیکٹر، پراپرٹی ، اور موٹر وہیکل پر منحصر ہے ۔رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ پنجاب کی مجموعی آمدن میں اون سورس ریونیو کا حصہ انتہائی کم ہے ۔حکومت ہر سال اپنا ریونیو ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہے ، 2024-25 میں 554 ارب روپے کا ہدف، مگر صرف 415 ارب جمع ہو سکے ۔ مسلسل تین سالوں میں ریونیو اہداف میں شدید کمی ریکارڈ ہوئی۔ جبکہ 2023-24میں 441 ارب کا ہدف، صرف 342 ارب حاصل ہوا ۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ صوبائی ٹیکس نیٹ میں شامل سروسز کی فہرست محدود، زرعی آمدن پر ٹیکس نہ ہونے کے برابر، چھوٹ کے ذریعے نقصان ہوا ہے ۔ اسٹامپ ڈیوٹی میں چھوٹ سے بھی آمدن کا بڑا نقصان ہوا ہے ۔ پنجاب کی ٹیکس چھوٹ پالیسیوں سے ہر سال اربوں کا نقصان ہورہا ہے ۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ٹیکس چھوٹ کے باعث معیشت میں توازن پیدا نہیں ہو رہا۔ ٹیکس چھوٹ کو ‘ٹیکس اخراجات’ کہا جاتا ہے ، جن کی رپورٹنگ بھی شفاف نہیں۔ ہر سال کی فنانس بل میں ٹیکس چھوٹ مزید بڑھائی جاتی ہے ۔ بورڈ آف ریونیو کا ٹیکس نیٹ بڑھانے میں کمزور کردار ہے ۔ محکمہ مال کی جانب سے زمینداروں کی آمدن کا درست ڈیٹا دستیاب نہیں۔ غیر دستاویزی معیشت سے ٹیکس وصولی ایک بڑا چیلنج۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ خودکار نظام کا فقدان، زیادہ تر ٹیکس دستی اور کرپشن کا شکارہے ۔ ٹیکس چوری پر سزا اور تادیبی کارروائی کا نظام کمزور ہے ۔ پراپرٹی ویلیو ایشن کے لیے DC ریٹ اب بھی زمینی حقائق سے کم ہے ۔ رجسٹریشن، اسٹامپ، پراپرٹی ٹرانسفر میں کرپشن اور ٹیکس چوری ہے ۔ مراعات یافتہ طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ نے عدم مساوات کو بڑھایا، غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹ ٹیکس نظام کی غیر شفافیت ہے ۔