دو ہفتوں کا کہہ کر دو دن بعد ہی امریکی حملہ ؟

(تجزیہ: سلمان غنی) ایران اسرائیل کی جنگ میں بالآخر امریکہ بھی کودپڑا اور اتوار کی صبح امریکہ نے ایران کی تین نیوکلیئر سائٹس پر حملہ کیا اوردعویٰ کیا کہ سائنٹس مکمل طور پر تباہ کر رہی ہیں جبکہ ایران کی جانب سے حملوں اور سائٹس کی تباہی پر کہنا ہے کہ امریکہ نے جوہری تنصیبات پر حملہ کے ذریعے لائن کراس کرلی ہے اب ہم جواب کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
اب اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ امریکہ دو ہفتوں کا کہہ کر دو دن بعد حملوں پر کیوں مجبور ہوا کیا حملوں کے مقاصد پورے ہونگے ۔ امریکہ کی جانب سے دو ہفتوں کیلئے وقت کے بعد دو ہی روز میں اس کا اقدام یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس پر اسرائیل کا بڑا دباؤتھا اور اسرائیل میں ایرانی حملوں کی وجہ سے صورتحال تبدیل ہو رہی تھی اور میزائل حملوں کے اس عمل نے خود اسرائیل کو پریشان کر رکھا تھا یہی وجہ تھی کہ اسرائیل امریکی مداخلت کیلئے اصرار کر رہا تھا البتہ دنیا کے بعض ممالک خصوصاً عالم اسلام اور پاکستان کی کوشش تھی کو خلیج میں پیدا اس صورتحال کا پرامن حل نکالا جائے ۔ دوسری طرف امریکی حملوں کے بعد ایران پسپائی کیلئے تیار نظر نہیں آ رہا۔ایران نے امریکہ کے جواب میں حکمت عملی میں عسکری محاذ سے زیادہ معاشی حوالہ سے اسے نقصان پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے اور آبنائے ہرمز کو بند کرنے اور امریکی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کا اعلان کیا ہے اور اس حوالہ سے ایرانی پارلیمنٹ نے فیصلہ کی توثیق کردی ہے اور بڑا سوال یہی ہے کہ آبنائے ہرمز پر حملہ کیا مریکہ اس کے اثرات اور نتائج برداشت کرے گا البتہ امریکہ کے ایران پر حملوں کے بعد عالمی میڈیا پر امریکہ بارے شدید تحفظات کا آغاز ہو رہا ہے اوران کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ایران بارے عزائم پورے ہوں نہ ہوں لیکن امریکی معیشت پر اس کے شدید اثرات مرتب ہوں گے ۔ایران پر امریکی حملہ کے بعد یہ سوال بھی عالمی محاذ پر کھڑا نظر آ رہا ہے کہ امریکہ کو ایران پر حملہ کا حق کس نے دیا کیا یہ حق اسے سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعہ ملا ؟اور سب سے اہم یہ کہ کیا ایران کے خلاف مقدمہ کسی عدالت میں ثابت ہوا۔
خود دو ہفتوں کیلئے حملے موخر کرنے کے اعلان کے بعد دو ہی روز میں امریکی اقدام خود صدر ٹرمپ بارے یہ تاثر عام کر رہا ہے کہ وہ قابل اعتبار نہیں اور اس طرح انہوں نے ایران کو سنبھالنے کے حوالہ سے پاکستان سمیت بعض ممالک کی کوششوں کا انتظار ہی نہیں کیا اور اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے کسی حد تک کوشش بھی کی لیکن یکدم سے حملہ کے اس عمل سے سب دھرے کا دھرا رہ گیا اور اب خطرناک بات یہ ہے کہ پرامن حل کی تمام تر کوششیں غارت گئیں اور اب تو لگ رہا ہے کہ طاقت فیصلہ کر رہی ہے اور اب اقوام متحدہ سمیت دوسرے فورمز کی کوئی حیثیت نہیں اور اگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا رجحان زور پکڑتا ہے تو پھر دنیا میں امن کی کوئی گارنٹی نہیں ہوگی۔وزیراعظم شہباز شریف کی ایرانی صدر کو ٹیلی فون کال پاکستان کی ایران اور ایرانی عوام سے یکجہتی کا ثبوت ہے جہاں تک پاکستان کی بات ہے صدر ٹرمپ کیلئے نوبل پرائز کی سفارش کا تعلق ہے تو اس حملہ کے بعد تو اس کا جواز ہی ختم ہوگیا کیونکہ پاکستان تو چاہتا تھا کہ پاک انڈیا تنازعہ کی طرح امریکہ اسرائیل ایران تنازعہ کا بھی کوئی پرامن حل نکالے گا جس پر امن کے حوالہ سے ان کا کردار اہم ہوگا لہٰذا پاکستان نے اس کیلئے حوصلہ افزائی تھی مگر خود صدر ٹرمپ نے ایران پر حملہ کرکے خود کو تاریخ کی اس سمت میں لاکھڑا کرلیا جہاں طاقت کے استعمال کے ذریعہ مسائل کا حل نکالا جاتا ہے تاریخ بتاتی ہے کہ ان کا حل کبھی دیرپا نہیں ہوگا۔