شوگر ملوں پر چینی کی قیمت 165 روپے کلو مقرر : حکومت کے ساتھ معاہدہ طے پاگیا

شوگر ملوں پر چینی کی قیمت 165 روپے کلو مقرر : حکومت کے ساتھ معاہدہ طے پاگیا

اسلام آباد(کامرس رپورٹر،دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)حکومت اور شوگرملز مالکان کے درمیان معاملات طے پا گئے، عوام کو ریلیف دینے کیلئے چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو گرام مقرر کردی گئی۔ وزارت غذائی تحفظ نے اس حوالے سے جاری بیان میں کہا شوگر ملوں کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں اب چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو گرام مقرر کردی گئی ہے، تمام صوبائی حکومتیں اس فیصلے کی روشنی میں عوام کو سستی چینی کی دستیابی یقینی بنائیں گی۔

ذرائع کے مطابق چینی کی فی کلو پیداواری لاگت 137.50 روپے ہے جس میں 27.50 روپے سیلز ٹیکس اور ڈیلر کا ودہولڈنگ ٹیکس شامل ہے جس کے بعد چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو بنتی ہے ۔ذرائع کے مطابق مذاکرات میں چینی کا ایکس مل ریٹ 165 روپے فی کلو طے کیا گیا جس میں ہر ماہ 2 روپے فی کلو اضافے کی شرط بھی شامل ہے ۔ہفتے کے روز شوگر ملز مالکان نے وفاقی وزیر غذائی تحفظ رانا تنویر سے مذاکرات کیے جبکہ اتوار کو نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے بھی مذاکرات میں شرکت کی۔ذرائع کا کہنا ہے صارفین کو نئے ایکس مل ریٹ کا فائدہ موجودہ سٹاک ختم ہونے کے بعد ملے گا۔وفاقی حکومت نے گزشتہ سال جون میں چینی کی ایکس مل قیمت 140روپے فی کلو مقرر کی تھی۔اس سال مارچ میں حکومت نے چینی کی ایکس مل قیمت 159 روپے فی کلو مقرر کی تھی، اب حکومت نے شوگر ملوں کے ساتھ چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو مقرر کر دی۔وفاقی حکومت نے گزشتہ ہفتے 5 لاکھ میٹرک ٹن تک چینی درآمد کرنے کی اجازت دی تھی، حکومت نے پچھلے سا ل جون تا اکتوبر 2024 ساڑھے 7 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ادھر سندھ اور پنجاب کی شوگر ملوں نے کراچی کے بازاروں میں جمعہ سے چینی کی ترسیل روکی ہوئی ہے۔

چیئرمین ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن رؤف ابراہیم کے مطابق کراچی میں صرف ذخیرہ شدہ چینی فروخت کی جارہی ہے جس سے فی کلوگرام چینی کی تھوک قیمت 178 تا 180روپے سے بڑھ کر 182روپے ہوگئی ہے جبکہ خوردہ قیمت 190 تا 195روپے سے بڑھکر 200روپے کی سطح پر آگئی ہے ۔مزید برآں ٹی وی رپورٹ میں بتایا گیا کہ شوگر ملز مالکان نے اضافی سٹاک کے نام پر چینی برآمد کرنے کی اجازت لی،چینی برآمد کرکے مقامی سطح پر قیمتیں بڑھا دیں،7 ماہ میں 60 روپے فی کلو اضافہ ہو چکا ہے ، مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں بڑھا کر اربوں روپے کی دیہاڑیاں لگائی جارہی ہیں۔دستاویزکے مطابق 2020 تک حکومت سے چینی برآمد کرنے کیلئے 4ارب 12کروڑ کی سبسڈی بھی لی، 26شوگرملز نے 4لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کیلئے حکومت سے سبسڈی لی، 2015 سے 2020 تک چینی برآمد کرنے کے نام پر بھی بڑے فراڈ کا انکشاف ہواہے ۔شوگر ملزمالکان نے افغانستان کو 23 لاکھ 55 ہزار میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے ، افغان حکومت کے ڈیٹا کے مطابق 15لاکھ میٹرک ٹن چینی افغانستان پہنچی، افغانستان بھیجی گئی 7لاکھ 78ہزار میٹرک ٹن چینی کا ریکارڈ ہی دستیاب نہیں ، ماضی میں گٹھ جوڑ سے قیمتیں بڑھانے پر 38 شوگر ملز کے خلاف مقدمات بھی ہوچکے ہیں۔

اسلام آباد،کراچی(نامہ نگار،سٹاف رپورٹر، اے پی پی،مانیٹرنگ ڈیسک)وزیر اعظم شہباز شریف نے آسان اورقومی زبان اردو میں ٹیکس گوشوارے کو خوش آئند قراردیتے ہوئے ہدایت کی ہے انہیں بھرنے کے عمل میں مدد کیلئے ہیلپ لائن قائم کی جائے ، ڈیجیٹل انوائسنگ کا بھی اردو میں اجرا اور ٹیکس اصلاحات میں عام آدمی کی سہولت پر توجہ مرکوز کی جائے ۔ٹیکس بیس کا اضافہ اور غریب آدمی پر ٹیکس کے بوجھ  میں مزید کمی کرنا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے ۔ پیر کو وزیر اعظم کی زیر صدارت ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن، مصنوعی ذہانت (اے آئی)پر مبنی نظام کے اطلاق اور دیگر اصلاحات پر ہفتہ وار جائزہ اجلاس ہوا۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ ایف بی آر کی تمام اصلاحات کی شفافیت کیلئے تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن یقینی بنائی جائے ،عوام کی سہولت کیلئے ٹیکس گوشواروں کو ڈیجیٹل، مختصر اور مرکزی ڈیٹابیس سے منسلک کرکے آسان ترین بنا دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا نئے آسان ٹیکس گوشواروں سے تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ مستفید ہوگا۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ ٹیکس گوشواروں (ریٹرنز) کی آسانی کے حوالے سے عوامی آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ نئے نظام کے تحت گوشوارے جمع کروائیں۔ وزیراعظم نے کہا ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے ٹیکس اسیسمنٹ کے نظام کا اطلاق بڑی کامیابی ہے ۔انہوں نے ہدایت کی کہ ڈیجیٹل انوائسنگ کے نظام میں شمولیت کیلئے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو خصوصی سہولت فراہم کی جائے ۔

اجلاس کو بتایا گیا ڈیجیٹل انوائسنگ کے ذریعے تمام چھوٹے اور بڑے کاروبار خرید و فروخت کے وقت ایف بی آر کے آن لائن نظام کے ذریعے رسید کا اجرا یقینی بنائیں گے ، اس نظام کے تحت آئندہ چند ماہ میں 20 ہزار کے قریب کاروبار نظام کے ساتھ منسلک ہو جائیں گے ۔وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ ڈیجیٹل انوائسنگ کی سہولت کا اردو میں بھی جلد اجرا کیا جائے ۔ٹیکس گوشواروں کو ڈیجیٹل اور آسان بنانے کے حوالے سے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ 15 جولائی سے تنخواہ دار طبقے کیلئے اس کا اجرا کیا جا رہا ہے جبکہ 30 جولائی کو باقی شعبوں کے ٹیکس دہندگان کیلئے بھی یہ سہولت میسر ہوگی۔ بتایا گیا کہ تنخواہ دار طبقے کیلئے اردو ٹیکس گوشوارے 30 جولائی تک میسر ہوں گے ۔ علاوہ ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے ہدایت کی ہے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری حضرات کے لیے ڈیجیٹائزیشن اور کیش لیس اکانومی کے مراحل کو آسان بنایا جائے ،راست کے بورڈ آف گورنرز اور چیئرمین کی تقرری ستمبر تک مکمل کی جائے اور اس میں معیشت اور کاروباری ماہرین کو شامل کیا جائے ۔وزیراعظم کی زیر صدارت کیش لیس و ڈیجیٹل معیشت کے حوالے سے ہفتہ وار اجلاس ہوا۔اس موقع پروزیر اعظم نے کہا معیشت کے ڈیجیٹائزیشن سسٹم میں شفافیت لانے کے حوالے سے حکومت کی اولین ترجیح ہے ،حکومت سے عوام اور عوام سے حکومت کی ادائیگیوں کے طریقہ کار کی ڈیجیٹائزیشن سے شفافیت اور صارفین کے لئے آسانی پیدا ہو گی۔وزیراعظم نے کہا تمام ریاستی ملکیتی اداروں (ایس او ایز)کو بھی ڈیجیٹل نظام کے دائرہ کار میں لایا جائے ۔

پی ایم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان سٹاک ایکسچینج کا ایک لاکھ 35ہزار پوائنٹس کی بلند ترین سطح عبور کرنے پرمسرت کا اظہار کیا اور کہا سٹاک ایکسچینج کا تاریخی سطح عبور کرنا کاروباری برادری کے پاکستانی معیشت پر اعتماد کا مظہر ہے ، حالیہ مثبت معاشی اعشاریے حکومتی پالیسیوں کی سمت درست ہونے کے عکاس ہیں، کاروباری برادری کو ملک میں کاروبار دوست ماحول فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک معاشی استحکام کے بعد معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے ،حکومت ملکی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے انتھک محنت کر رہی ہے ۔دوسری طرف وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا میری رائے میں شرح سود میں کمی کی گنجائش موجود ہے تاہم اس حوالے سے فیصلہ سٹیٹ بینک نے کرنا ہے ،جتنی مالیاتی گنجائش تھی تنخواہ داروں کو اتنا ریلیف دے چکے ،ٹیکس گوشوارہ آسان بنادیاہے ،مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں،حکومت نے رواں مالی سال میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو 2 ارب 30 کروڑ ڈالر منافع کی مد میں ادا کیے ہیں تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال رہے ۔کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا حکومتی اقدامات کے باعث معیشت استحکام کی جانب گامزن ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشی استحکام میں حائل رکاوٹوں کو دور کر دیا ہے ۔

ان کا کہنا تھا مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں، 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں ملٹی نیشنلز کا 2.3 ارب ڈالر کا منافع باہر گیا ہے ، بیرونی سرمایہ کاروں کا منافع باہر جانے ، ایل سی نہ کھلنے کے مسائل ختم ہو گئے ۔وزیر خزانہ نے کہا بینک سرمایہ کاروں سے مل کر بیمار صنعتی یونٹس کو بحال کریں۔وزیر خزانہ کا کہنا تھاحکومت نے اپنے اخراجات میں کمی کی ہے اور گردشی قرضے کو بھی کم کر رہے ہیں۔نجکاری میں بینکس کا کردار ہونا چاہیے ، بیمار صنعتوں کو دوبارہ فعال کرنے میں بینکس کااہم کردار ہو سکتا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا جتنی سپیس تھی اتنا ریلیف تنخواہ داروں کو دے چکے ، تنخواہ داروں کی سہولت کے لیے ٹیکس گوشواروں کو آسان بنا دیا ہے ، تنخواہ داروں کے لیے بہت آسان فارم ایف بی آر کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دیا گیا ہے ، یہ فارم چھوٹے تاجر اور ایس ایم ایز کو بھی دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کون سا وزیر خزانہ نہیں چاہتا کہ فوری شرح نمو بڑھے لیکن پھر زرمبادلہ ذخائر دباؤ کے بعد کم سطح پر چلے جائیں گے ۔ انہوں نے بتایا کنسٹرکشن فنانسنگ پر کام جاری ہے اور کمرشل بینکوں کو چھوٹے و درمیانے گھروں کی تعمیر کیلئے قرض فراہم کرنے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ پراپرٹی سیکٹر میں بہتری آسکے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو ماہانہ بنیاد پر ای سی سی خصوصی طور پر فوکس کر رہی ہے ، سٹرکچرل سلوشن کے لیے ڈی ریگولیشن فارمولے کو ہر صورت اپنانا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ مکئی، چاول اور دالوں کی قیمتوں میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کموڈٹیز اور چینی کی قیمتوں پر ای سی سی ماہوار مانیٹرنگ کر رہا ہے ، پاکستان میں تمام سیکٹرز کو ڈی ریگولیٹ کر دیا جائے تو بہتری آئے گی۔ چینی اور گندم کی سمگلنگ کے لیے وزارت خوراک اور مجموعی طور پر کابینہ کام کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا حکومت کے دانشمندانہ اقدامات سے معیشت مستحکم ہورہی ہے ، اقتصادی استحکام کی رفتار حوصلہ افزا ہے ، غذائی اشیا کی قیمتیں کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں ملکی معیشت، افراط زر اور معاشی پالیسی پر عمومی بات تو کی تاہم جب ان سے چینی کی قیمتوں اور مبینہ کارٹل سازی پر مسلسل سوالات کیے گئے تو وزیر خزانہ نے ان کا کوئی تسلی بخش جواب دینے سے گریز کیا۔ پریس کانفرنس کے دوران صحافی نے استفسار کیا کہ چینی اور گندم کے کارٹل کی وجہ سے وزارت خزانہ کی پالیسیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں تو حکومت ان پر فوری اور واضح ایکشن لینے سے قاصر کیوں ہے ؟دوبارہ اسی تناظر میں سوال کیا گیا کہ چینی کی درآمد پر جاری کیے ایف بی آر کے ایس آر اوز سے اربوں روپے کی ڈیوٹی معاف کی گئی جس سے قومی خزانے کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا،کیا یہ اقدام شفاف تھا یا کسی مخصوص گروہ کوفائدہ پہنچانے کی کوشش؟ تاہم وفاقی وزیر نے ان تمام سوالات کو نظر انداز کرتے ہوئے مختصر طور پر صرف اتنا کہا کہ فلائٹ کا ٹائم ہے مجھے جانا ہے اور کسی بھی وضاحت یا جواب دئیے بغیر روانہ ہوگئے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں