سیلاب کی تباہی، پختونخوا حکومت اکیلے نہیں نمٹ سکتی

سیلاب کی تباہی، پختونخوا حکومت اکیلے نہیں نمٹ سکتی

(تجزیہ:سلمان غنی) پختونخوا میں کلاؤڈ برسٹ کے نتیجہ میں سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے عمل نے پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے ۔ سب سے زیادہ تشویش ضلع بونیر کے حوالے سے ہے۔

 وہاں اموات بھی درجنوں میں اور کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے جبکہ متاثرہ اضلاع میں ہزاروں کی تعداد میں مکانات گرنے ،فصلیں اور جانور سیلابی ریلے میں بہہ جانے کی اطلاعات ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں متعلقہ اداروں کی جانب سے متاثرین کو بچانے ، محفوظ مقامات پر پہنچانے اور ان کیلئے خوراک اور ضروری اشیا کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے لیکن اب تک کی اطلاعات کے مطابق سیلابی پانی روکے نہیں رک رہا اور تباہی و بربادی کا باعث بن رہا ہے ۔ حکومت اور متعلقہ ادارے اپنی اہلیت کے مطابق سرگرم دکھائی دے رہے ہیں لیکن حقائق یہی ہیں کہ سیلابی بارشوں کے اس عمل اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی تباہی سے نمٹنا صرف پختونخوا حکومت کے بس کی بات نہیں اور اس کیلئے وفاق اور دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی میدان میں آنا پڑے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف پہلے ہی این ڈی ایم اے کو ممکنہ وسائل بروئے کار لانے کی ہدایات کر چکے ہیں۔

صوبائی حکومتیں خصوصاً پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ نے پختونخوا کے وزیراعلیٰ سے رابطے کرکے انہیں ہر طرح کی مدد کی یقین دہانی کروائی ہے اور پریشانی میں حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ متاثرہ علاقوں کیلئے قومی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات اس امر کی دلیل ہیں کہ مشکل کی اس گھڑی میں سب پختونخوا کی حکومت اور متاثرہ علاقوں کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ مشکل وقت میں قومی جذبے کا اظہار ہی ہماری پہچان ہے ۔2002 کے تباہ کن سیلاب میں وفاقی حکومت نے ان علاقوں کیلئے خصوصی طور پر 70 ارب کے فنڈز کا اعلان کیا تھا اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت متاثرہ طبقے میں تقسیم ہوا تھا ، اس وقت زیادہ نقصان سندھ میں ہوا تھا اور دیگر صوبوں میں نقصان کم تھا مگر اس وقت وفاق کی ترجیح سندھ تھا لیکن اب پختونخوا میں ہونے والی تباہی کا عمل بہت زیادہ ہے اور اس وقت تک تقریباً تین سو سے زائد افراد کی اموات ریکارڈ پر ہیں۔ یہی وقت ہے کہ سیاسی اختلافات کو بالا تر رکھتے ہوئے پختونخوا میں انسانی بنیادوں پر اقدامات اور وسائل فراہم کیے جائیں کیونکہ یہاں آنے والی تباہی کے بعد بڑے چیلنجز متاثرین کی بحالی ، انفراسٹرکچر کی مرمت اور زرعی نقصان کے لئے بڑے پیمانے پر فنڈز کی ضرورت ہوگی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں