استنبول مذاکرات ناکامی سے دوچار، سیز فائر کا مستقبل کیا ہوگا

 استنبول مذاکرات ناکامی سے دوچار، سیز فائر کا مستقبل کیا ہوگا

بھارت پاک افغان کشیدگی کا خواہاں کیوں؟، پھر سے چین متحرک ہو سکتا ہے

(تجزیہ:سلمان غنی)

بظاہر تو استنبول میں جاری پارک افغان مذاکرات کا تیسرا دور بھی ناکامی سے دوچار ہوا ہے جس پر فریقین ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرا رہے ہیں لیکن اصل ایشو اب یہ ہوگا کہ کیا سیز فائر کا عمل جاری رہے گا ۔اس حوالہ سے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے تو واضح طور پرکہہ چکے کہ جب تک افغانستان خلاف ورزی نہیں کرتا جنگ بندی رہے گی ،افغانستان سے پھر سے بات چیت کا کوئی دور نہیں ہوگا۔ دوسری جانب افغان ترجمان ذبیح اﷲمجاہد کا کہنا ہے کہ مذاکرات پاکستان کی وجہ سے بے نتیجہ رہے اور ان کا غیر ذمہ دارانہ اور عدم تعاون پر مبنی رویہ اس امر کا باعث بنا، البتہ انہوں نے طالبان حکومت کا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔

ویسے تو مذاکراتی عمل کا اگربخوبی جائزہ لیا جائے تو پاکستان اور افغان طالبان میں مذاکراتی عمل کی نتیجہ خیزی میں بنیادی رکاوٹ اعتماد کا فقدان اور سلامتی کے نفاذ کا نتیجہ ہے ، پاکستان نے تو کبھی افغانستان پر حملہ کیا اور نہ ہی اپنے ملزموں اور دہشت گرد عناصر کا پیچھا کرتے ہوئے پیش رفت کی تھی ،اب پاکستان کی جانب سے زیرو ٹالرنس اور موقف یہی ہے کہ اب اگر افغان سرزمین سے دہشت گردی کا استعمال ہوگا تو اس سرزمین پر اسکو اس کا جواب ملے گا اور یہی وہ امر ہے جس پر دوست ممالک نے معاملات کو ایک خاص سطح سے آگے نہ جانے دینے کیلئے مذاکراتی عمل کا اہتمام کیا لیکن دوحہ کے بعد استنبول میں تیسرا سلسلہ بھی نتیجہ خیز نہیں ہوا اور مستقبل قریب میں بھی اس کا اہتمام ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ البتہ کچھ سفارتی حلقے یہ ضرور کہتے نظر آ رہے ہیں کہ چین کو ایک مرتبہ پھر سے آگے آنا ہوگا کیونکہ چین کو بھی افغانستان میں امن کی ضرورت ہے اور وہ بھی چاہے گا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات کسی بڑے مقام کی طرف نہ بڑھیں کیونکہ سی پیک کے مغربی روٹس اور بیلٹ اینڈ روڈ کیلئے یہ خطہ اہم ہے۔

بلاشبہ پاکستان میں افغانستان کے حملوں پر ریاست اور حکومت میں یکسوئی ہے کہ اب اس پر صبر کی بجائے ردعمل دینا ہوگا ،پاکستان نے شدید ردعمل کے باوجود بھی امن کا دروازہ کھلا رکھا ۔دوسری جانب طالبان انتظامیہ پاکستان کی سختی کی پالیسی کو داخلی دباؤ اور سیاسی کمزوری کا نتیجہ قرار دیتی ہے ۔ماہرین کے مطابق آنے والے دنوں میں سرحدی صورتحال پر تناؤ بڑھے گا اور اسکی وجہ ہوسکتا ہے کہ افغان طالبان نہ ہوں لیکن افغان سرزمین پر موجود اور فورسز ہوں ،کیونکہ اب نئی پیدا شدہ صورتحال میں بھارت بھی کھل کر سامنے آ چکا ہے ،را اور این ڈی ایس کا گٹھ جوڑ سرگرم نظر آ رہا ہے اور بھارت یہ نہیں چاہے گاکہ پاکستان اور افغانستان میں سیز فائر قائم رہے کیونکہ بھارت اپنی جگ ہنسائی سے بچنے کیلئے ضرور سمجھتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کاٹکراؤ جاری رہے ، وزیراعظم نریندر مودی کی حیثیت خود اپنے ہی ملک میں ایک ملزم کی بن کر رہ گئی اور پارلیمنٹ سمیت ہر سطح پر انہیں بھارت کو ہونے والی حالیہ شکست فاش اور ان کے طیاروں کی تباہی کا ذمہ داری قرار دیا جا رہا ہے ۔

استنبول میں مذاکرات کی ناکامی کو اب نئی پیدا شدہ صورتحال میں ایک بڑے اور گہرے بحران کی علامت سمجھا جا رہا ہے ۔ یہ صرف مذاکرات کی ناکامی نہیں بلکہ خطہ کی بڑھتی ترجیحات، اعتماد کے فقدان اور طالبان حکومت کے غیر واضح بیانیہ کی عکاس کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ استنبول میں پاکستان کے وفد نے کسی جذباتی اپیل کی بجائے ٹھوس شواہد پیش کئے کہ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال جاری ہے ۔پاکستان کی حکمت عملی سے اب کابل انتظامیہ پریشان ہے ، اب پھر خطہ میں حکومت اور ریاست ایک نکتہ پر متحد نظر آ رہی ہیں اور وہ کسی طور پاکستان کے سکیورٹی معاملات پر کمپرومائز کیلئے تیار نہیں جبکہ افغان انتظامیہ اب بھی اپنی سرزمین پر ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن کی پوزیشن میں نہیں اور اگر وہ ایسا کر بھی پاتے ہیں تو پھر یہ سلسلہ اس کی دیگر تنظیموں کے خلاف بھی دراز کرنا پڑے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں