پنجاب اسمبلی کی قرارداد پر عملدرآمد لازم نہیں ہوتا

پنجاب اسمبلی کی قرارداد پر عملدرآمد لازم نہیں ہوتا

تمام تر تحفظات کے باوجود کوئی بھی سیاسی جماعت پابندی کی حمایت نہیں کریگی

(تجزیہ:سلمان غنی)

مشکلات ،مقدمات اور جیل کی صعوبتوں کے باوجود پی ٹی آئی پسپائی کیلئے تیار نظر نہیں آ رہی اور وہ مشکل حالات میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں ایک قرارداد پاس کروائی گئی جس میں پی ٹی آئی کو دشمن ملک کی آلہ کار جماعت قرار دیتے ہوئے ملک کے خلاف بیان بازی اور انتشار پھیلانے والوں کے خلاف پابندی کی سفارش کی گئی ۔لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا پی ٹی آئی پر بحیثیت جماعت پابندی کا کوئی جواز ہے ۔

جہاں تک پی ٹی آئی کے خلاف پابندی کے لئے قرارداد کا سوال ہے تو فی الحال تو اسے قرارداد ہی کہا جا سکتا ہے اور کسی بھی پاس کی جانے والی قرارداد پر عملدرآمد لازم نہیں ہوتا، البتہ یہ ہاؤس کے مائنڈ کی نشاندہی ضرور کرتی ہے، اور حقائق یہی ہیں کہ جیل میں بند پی ٹی آئی کے لیڈر کی جانب سے آنے والے ریاست سے متعلق منافی بیانات اور بعض ذمہ داران کو ٹارگٹ کرنے کے عمل پر بہت سے سوالات کھڑے ہیں اور ان کی جانب سے یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے جس پر خود ان کی اپنی جماعت میں بھی تحفظات موجود ہیں ۔پارٹی کے لیڈر آئین وقانون کی بات بھی کرتے نظر آ رہے ہیں اور ان کے بانی ریاستی اداروں کو بھی ٹارگٹ کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔جہاں تک پابندی کے اقدام کا تعلق ہے تو یہ معاملہ کوئی اتنا سادہ نہیں اس لئے کہ بہرحال پی ٹی آئی ایک بڑی جماعت اور ان کے لیڈر پاکستان کے سابق وزیراعظم رہے ہیں، ان کی پالیسیوں پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن پابندی جیسے حتمی اقدام کے لئے قاعدہ کیس بنانا پڑے گا صرف بیانات اور ٹویٹس اس کے لئے کافی نہیں ہوں گی ۔

اس کے لئے حالات بہت تبدیل شدہ ہیں اور خصوصاً 9مئی کے واقعات، ریاستی اداروں اور ان کے ذمہ داران کے خلاف بیانات اور سوشل میڈیا کے ذریعہ انتشار اور خلفشار پھیلانے کے عمل نے خود پی ٹی آئی کو ہی کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے ۔اگر کوئی اپنی سیاست کی آڑ میں اسے چیلنج کرے گا اور ان کے ذمہ داران کے خلاف بیانات دے گا تو یہ امر اور یہ عمل انہیں بھگتنا ضرور پڑے گا جیسا کہ ہو رہاہے ۔بلاشبہ ان کے اراکین اسمبلی نہ چاہتے ہوئے بھی پارٹی ڈسپلن کی بنیاد پر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے اور حاضری لگاتے نظر آتے ہیں لیکن عملاً ان کی مشکلات ختم ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔ ایسا کیوں ہے ، کون ذمہ دار ہے اور ان کے لئے سیاسی راستے کیونکر کھلتے دکھائی نہیں دے رہے ۔تو اس کی بڑی وجہ خود بانی پی ٹی آئی، ان کا طرز عمل اور طریقہ کار ہے اور جب تک وہ اپنے طرز عمل پر نظرثانی نہیں کریں گے معاملات میں سلجھاؤ نظر نہیں آئے گا۔

جہاں تک دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی کی حمایت کا سوال ہے تو تمام تر تحفظات کے باوجود کوئی بھی سیاسی جماعت اس کی دل سے حمایت نہیں کرے گی کیونکہ ایسے کسی عمل پر آنے والے حالات میں انہیں جوابدہ بھی ہونا پڑ سکتا ہے ۔ مسلم لیگ ن کے اندر پھر ایسے لوگ ہیں جو یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ہم نے ماضی میں سخت حالات دیکھے ہیں، جیلیں بھگتی ہیں لیکن ہم ایک حد سے آگے نہیں گئے ، لہٰذا اب تبدیل شدہ حالات میں بھی ہمیں کسی جماعت کے خلاف ایک حد سے آگے نہیں جانا چاہئے ۔ان حلقوں کے مطابق پابندی کے مطالبات اور قراردادیں بھی اس عمل کا حصہ ہیں لیکن اس پر پیشرفت ہو گی فی الحال اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں