لیفٹیننٹ جنرل (ر )فیض حمید کو سزا پی ٹی آئی کیلئے خطرے کی گھنٹی

لیفٹیننٹ جنرل (ر )فیض حمید کو سزا پی ٹی آئی کیلئے خطرے کی گھنٹی

فوج فیصلہ کر چکی 9مئی میں ملوث افراد کے گرد قانون کا شکنجہ کسا جانا چاہئے

(تجزیہ:سلمان غنی)

سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل(ر)فیض حمید کو فوجی قانون کے تحت ہونے والے جنرل کورٹ مارشل کے تحت چودہ سال قید بامشقت کی سزا کو مسلح افواج کے اندرونی ڈسپلن احتسابی عمل اور ساکھ کے حوالہ سے اہم قرار دیا جا سکتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اپنے اندرونی نظم و نسق اور اپنی پیشہ ورانہ اہلیت کے ساتھ اپنی شہرت پر کوئی قدغن برداشت نہیں کرتی اور کوئی شخص کتنا بھی اثر و رسوخ کا حامل ہو اسے جوابدہ بھی بننا پڑتا ہے اور الزامات ثابت ہونے پر اسے سزا بھی ملتی ہے اور یہی وہ طاقت ہے جس نے پاکستان کی مسلح افواج کو اندرونی و بیرونی طور پر غیر معمولی بنا رکھا ہے۔ لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ جنرل کورٹ مارشل کے تحت سزا کے اس عمل کا اصل پیغام کیا ہے اس کے اثرات کیا ہوں گے ، بلاشبہ یہ آئی ایس آئی کے پہلے سربراہ ہیں جنہیں کورٹ مارشل سمیت چودہ سال کی قید کی سزا کا سامنا ہوا اور اگر فوج کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بڑی سیاسی حقیقت یہ ہے کہ وہ اندرونی مضبوطی پر آنچ نہیں آنے دیتی۔

9مئی کے واقعات گھیراؤ جلاؤ اور توڑ پھوڑ کے عمل میں بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر ملوث ہونے کی بنا پر بھی کئی اہم افسر گھروں کو جا چکے ہیں لگتا ہے کہ یہ خود پی ٹی آئی اور اس کی لیڈر شپ کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے مطلب کہ 9مئی کے واقعات سمیت بعض اہم عوامل کو ریاست ہضم کرنے کے لئے تیار نہیں اور ابھی سزا کا یہ عمل ختم نہیں ہوا ۔مسلح افواج فیصلہ کر چکی ہے کہ 9مئی کے واقعات میں جو جو بھی جیسے تیسے ملوث ہوا اس کے گرد قانون کا شکنجہ کسا جانا چاہئے تاکہ مستقبل میں ایسے کسی واقعہ کا احتمال نہ ہو اور جو بھی ریڈ لائن کراس کرے یا ریاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے اسے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور اس عمل کے نتیجہ میں فوج پر عوام کا اعتماد بڑھے گا اور دنیا کو پتہ چلے گا کہ مسلح افواج کا احتساب کا اندرونی سسٹم کیاہے ۔ البتہ ماہرین سزا کے عمل کو ایک موثر اور کڑے احتساب کی طرف پیش رفت کا ذریعہ قرار دے رہے ہیں اور اسے نکتہ آغاز بنایا جا رہا ہے اور یہ حکومت اور اہل سیاست کے لئے بھی پیغام ہے کہ اگر ایک ریاستی ادارہ اپنے اندرونی احتسابی عمل کے ذریعہ اپنے ایک سینئر افسر کو بھی معافی دینے کے لئے تیار نہیں تو حکومتیں اور سیاسی اشرافیہ کیونکر جوابدہ نہیں۔

کہا جا سکتا ہے کہ فیض حمید اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان ملی بھگت کے نتیجہ میں دونوں کو جیل جانا پڑا دونوں ہی اپنے اپنے وقت میں طاقت کے نشہ میں سرشار تھے اور بظاہر ایسا لگ نہیں رہا تھا کہ کبھی یہ قانون کے شکنجے میں آئیں گے ۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی بقا و سلامتی کے لئے اگر موثر دفاع ناگزیر ہے تو پھر معاشی بقا کے لئے ملکی دولت لوٹنے والوں کی بھی پکڑ لازم ہے ۔جنرل فیض حمید کو سزا کے عمل کے ساتھ سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہی ہے کہ آخر جنرل فیض حمید ہی کیوں کیا ان کی جانب سے کھیلے جانے والے مذموم عمل میں انہیں اپنے وقت کے آرمی چیف کی تا ئید و حمایت حاصل نہیں تھی اور اگر فیض حمید مجرم بن گئے تو جنرل باجوہ کی آزادی کیونکر ہے کیا یہ سلسلہ ان تک دراز ہوگا فی الحال تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید ایسا ممکن نہ ہو کیونکہ اس کے اثرات سسٹم کے لئے بہتر نہیں ہوں گے مگر کچھ لوگوں کی رائے میں اگر یہ سلسلہ جنرل قمر جاوید باجوہ تک دراز ہوتا ہے تو پھر پاکستان میں کوئی بھی مستقبل میں کوئی غیر قانونی کام کرتے ہوئے اپنے اثر و رسوخ کے غلط استعمال سے پہلے سو مرتبہ سوچے گا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں