مائنس ون کیلئے دباؤ کی روایت پرانی لیکن کبھی ہوا نہیں

مائنس ون کیلئے دباؤ کی روایت پرانی لیکن کبھی ہوا نہیں

فیصلوں کیلئے اڈیالہ کی طرف دیکھتی رہی تو پی ٹی آئی کا مستقبل غیریقینی

(تجزیہ:سلمان غنی)

فیصلہ تو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف آیا ہے ، لیکن اس کے براہِ راست اثرات سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی پر واضح نظر آ رہے ہیں۔ جماعت کی اعلیٰ قیادت اور باہمی مشاورت میں اس فیصلے سے متعلق پریس ریلیز کے اس نکتے پر غور جاری ہے کہ معاملہ ابھی رکا نہیں۔ فیض حمید پر ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے اور اس حوالے سے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ کی باتیں بھی زیر بحث ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کسی احتجاجی یا مزاحمتی عمل کے بجائے خوفزدہ دکھائی دیتی ہے اور اسے سیاسی بقا کا چیلنج درپیش ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی قیادت ریاست یا اداروں کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں تو پھر خوف کی کیا وجہ ہے ، اور کیا اس فیصلے کے فالو اپ میں جماعتی قیادت کے گرد قانونی شکنجہ کسے جانے کا امکان ہے ؟۔

فیض حمید کے خلاف فیصلے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ مسلح افواج سب کچھ برداشت کر سکتی ہیں، مگر اپنی ساکھ، اندرونی نظم و ضبط اور احتساب پر کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتیں۔ اگر کوئی افسر یا جوان غیر قانونی طریقے سے اثر انداز ہونے کی کوشش کرے تو وہ احتساب سے بالاتر نہیں۔ ادھر پی ٹی آئی کے بعض ذمہ داران نے جماعت کو بند گلی میں دیکھتے ہوئے اپنی سرگرمیاں محدود کر لی ہیں۔ ذرائع کے مطابق بعض رہنماؤں کی عدم دلچسپی کے باعث نئی سیاسی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں سابق صدر عارف علوی، سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سمیت سات اہم رہنماؤں کو شامل نہیں کیا گیا کیونکہ وہ مزاحمت کے بجائے سیاسی راستے پر زور دے رہے تھے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر بانی اراکین سیاسی کمیٹی میں شامل نہیں اور محمود خان اچکزئی و راجہ ناصر عباس شامل ہیں تو سیاسی سمت واضح ہو جاتی ہے ۔

ان کے مطابق جب تک اس بات کا جائزہ نہیں لیا جاتا کہ مشکلات کیوں بڑھ رہی ہیں اور طاقت کم کیوں ہو رہی ہے ، نہ سیاسی کردار بحال ہو سکے گا اور نہ معاملات آگے بڑھیں گے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی شدید اندرونی کنفیوژن کا شکار ہے ، جبکہ فیض حمید کے خلاف فیصلے نے تحریک انصاف کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے ۔دوسری جانب ماہرین کے مطابق پاکستان میں مائنس ون کیلئے دباؤ کی روایت تو ضروررہی ہے لیکن اصل میں مائنس ون ہوا نہیں ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے آمریت کو چیلنج کیا مگر ریاستی مفادات کو مدنظر رکھا، اسی لیے وقت کے ساتھ انہیں قبول کر لیا گیا۔ پی ٹی آئی کا المیہ یہ ہے کہ اس نے سیاسی طاقت کو ریاست پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیا اور یہ بھول گئی کہ ریاست کبھی سرنڈر نہیں کرتی۔ اگر وہ اب بھی فیصلوں کے لیے ‘‘اڈیالہ’’ کی طرف دیکھتے رہے تو سیاسی مستقبل غیر یقینی رہے گا، اور پاکستان میں یہ روایت رہی ہے کہ یہاں کے عوام کمزور مستقبل والی جماعت کے حق میں اپنا وزن نہیں ڈالتے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں