آرڈیننس سے کس کو فائدہ ہوگا فیصلہ عدالتیں کرینگی :حکومت,نیب ختم کرکے اپوزیشن سے ملکر قانون سازی کی جائے :بلاول

آرڈیننس سے کس کو فائدہ ہوگا فیصلہ عدالتیں کرینگی :حکومت,نیب ختم کرکے اپوزیشن سے ملکر قانون سازی کی جائے :بلاول

احسن اقبال کے بھائی کو ٹھیکہ دیا گیا،دیکھنا ہوگا منصوبوں میں کرپشن ہوئی یا نہیں،2020 ترقی کا سال ،24ہزار ارب کی کرپشن کی تحقیقات ضرور ہونگی ، این آر او دینے اورلینے والا وقت گزر گیا نواز، شہباز ،زرداری اور شاہد عباسی کے زیر سماعت مقدمات پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا ، ترامیم کسی کے ذاتی فائدہ کیلئے نہیں لائے ، احتساب ہو کر رہے گا :شہزاد اکبر ، مراد سعید کی پریس کا نفرنس جو لوگ خان کیساتھ مل گئے ، انکے گناہ دھل گئے ،بتائیں مزاحمت کون کر رہا ، نیب آرڈیننس این آر او کی ماں،پارلیمان کی بے توقیری :حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ، قمرزمان کائرہ اور دیگر

اسلام آباد(سیاسی رپورٹر، نیوز ایجنسیاں )حکومت نے کہا ہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کسی کو فائدہ پہنچانے کے لئے نہیں لایاگیا، نواز شریف ،شہباز شریف، زرداری، شاہد خاقان عباسی کے خلاف مقدمات عدالتوں میں ہیں جن پر حکومت سمیت کوئی اور اثر انداز نہیں ہو سکتا، آرڈیننس سےکس کو فائدہ ہو گا اور کس کو نہیں اس کا فیصلہ عدالتیں کریں گے ،آرڈیننس کے ذریعے کسی کو این آر او نہیں دیا جارہا، وزیراعظم عمران خان کرپشن کے خاتمے کے لئے پر عزم ہیں، این آر او دینے اور لینے والاوقت گزر چکا ہے ، ہر کسی کا بلا امتیاز احتساب ہوگا ، وزرا کے خلاف نیب میں مقدمات درج ہوئے جس پر ا نہیں استعفیٰ دینا پڑا، 2020 عوام کی ترقی اور خوشحالی کا سال ہے ، احساس پروگرام کے لئے 192 ارب روپے رکھے گئے ہیں ، ایک لاکھ 80 ہزار افراد کو شیلٹر ہومزمیں پناہ دی گئی ۔ اکانومی کو ایمرجنسی سے نکال لیا ہے ،اب غریب طبقہ کو نیچے سے اوپر لیکر جانا ہے جو عمران خان کا خواب ہے ۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر مراد سعید اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب و امور داخلہ شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کیا ہے ۔ا نہوں نے کہا کہ گزشتہ10سال سے نیب قوانین میں تبدیلی کی بات چل رہی تھی جو بددیانتی پرمبنی تھی لیکن ہماری حکومت نے ایسی ترامیم کی ہیں جس سے احتساب کا نظام بہتر ہوگا، کسی کو ذاتی فائدہ نہیں پہنچایا گیا ،یہ سب پراپیگنڈا ہے ،معیشت آئی سی یو سے نکل چکی ہے ، ترقی اور خوشحالی کی طرف چل پڑے ہیں، اداروں کی ساکھ میں اضافہ ،لوگوں کا اعتماد بحال ہوا، سخت معاشی بدحالی کے باوجود نیب افسران کو مراعات دی ہیں، ادارے کو پیسہ دیا تاکہ وہ بہتر کام کر سکے ، ایف آئی اے کے انفراسٹرکچر اور ہیومن ریسورس کے لئے اقدامات کر رہے ہیں، مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے ، احتساب کے عمل پر تنقید کو دورکرنے کیلئے اقدام کررہے ہیں، معاشر ے میں کرپشن کاناسور پھیل چکا ہے ۔ نیب آرڈیننس بہترین قانون ہے ، اس میں مزید بہتری کے لئے کچھ کام کیا ہے ، احتساب سے کوئی مبرا نہیں ، نیب قانون میں سیکشن9 اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق ہے ،کسی غلط فیصلے کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ اختیارات کا نا جائز استعمال ہے ، آپ نے کسی فیصلے سے کسی رشتہ دار کو فائدہ پہنچا یا تو یہ بھی کرپشن کی ایک قسم ہے ، نیب اور ایف بی آر کے کام کو الگ کر دیا گیا ہے ،سیکشن4 کے تحت ٹرانزیکشن پر نیب قانون کا اطلاق نہیں ہوگا، اگر ایک شخص نے ٹیکس ادا نہیں کیا یا چوری کی ہے تو یہ کرپشن ضرور ہے لیکن نیب کے متعلقہ نہیں بلکہ ایف بی آر تحقیقات کرے گا ،ایک عام شخص جوکسی عہدے پر نہیں ،سرکاری عہدہ نہیں رکھتا ، اگر وہ ذرائع سے زیادہ آمدن رکھتا ہے تو یہ نیب کا قانون نہیں بنتا بلکہ ایف بی آر دیکھے گا ،اگر کوئی بینکر ، پرائیویٹ شخص اور پراپرٹی ڈیلر کرپشن ،ہیرا پھیری یا لوٹ مار کرتا ہے تو اس پر نیب قوانین کا اطلاق ہوگا ، رولز کی خلاف ورزی ہوئی ہے لیکن کرپشن نہیں ہوئی تو اس کیخلاف محکمانہ کارروائی ہوگی ، پیرا بن سکتا ہے ، پی اے سی میں جائے گا، کرپشن ، کمیشن، کک بیکس قابل گرفتار ی ، ایف بی آر بڑے ر یڈ کرے گا اگر معاملہ میں کہیں کرپشن نہیں ہوئی،ریمانڈ، تحقیقاتی عمل ، چالان سمیت کسی معاملہ پر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، نیب پوری طرح متحرک ہے اور بااختیار ہے ۔اختیارات کے حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں، ابو بچائو مہم پر کوئی تعاون اور سمجھوتہ نہیں ہوسکتا،تحریک انصاف اپنے منشور کے مطابق کرپشن کے خاتمہ کے لئے عمل پیرا ہے ، وفاقی وزیرمراد سعید نے کہا کہ شہباز کیس میں دو چیزیں سامنے آئی ہیں ،وزیراعلیٰ نے اپنی پسند کی تعیناتیاں کیں، یہ ان کا اختیار تھالیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کرپشن ہوئی یا نہیں ،جاوید صادق پرائیویٹ بندہ ہے لیکن اس کی وجہ سے قومی خزانے کو 50ارب کا نقصان ہوا ،ایسے کردار قابل معافی نہیں، احسن اقبال کے بھائی کو ٹھیکہ دیا گیا، وزیراعلیٰ کا اختیار تھالیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ ان منصوبوں میں کرپشن ہوئی یا نہیں،یقینی طور پرکرپشن ہوئی، اس لئے نیب کارروائی کے لئے بااختیار ہے ’ورلڈ بینک ’ آئی ایم ایف اور موڈیز کی طرف سے پاکستان کی معیشت کیلئے پازیٹو سگنلز آرہے ہیں، 2020 ترقی کا سال ہے ، 24000ہزار ارب کی کرپشن کی تحقیقات ضرور ہوں گی، 1190 کروڑ روپے مواصلات میں ریکوری ہوئی، آڈٹ کے ذریعے دیگر محکموں میں بھی اربوں روپے کی ریکوری آرہی ہیں، 24ہزار ارب کی کرپشن کی تحقیقات اور ملوث افراد کو قوم کے سامنے بے نقاب کریں گے ، احساس پروگرام کے تحت غریب آدمی کو فائدہ پہنچایا، ایک لاکھ 80 ہزار افراد کو شیلٹرہائوس میں پناہ ملی ، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ این آر او بلاول کی والدہ کے لئے ہوا تھا ، پی پی نے این آر او کے لئے امریکہ کے پائوں پکڑے ’ زرداری اور حسین حقانی نے مل کر امریکہ کو کہا تھا کہ آپ ڈرون حملے کریں ہم معاملہ سنبھال لیں گے ، جب بے نظیر بھٹو، بلاول کو اپنے اپنے اکائو نٹس کے متعلق فون پر تفصیلات بتا رہی تھیں این آر او دینے والے اور لینے والے دونوں نے سمجھوتہ کیا، جونیئر زرداری فضل الر حمن کے کنٹینر پر چڑھ گئے ،باہر جا کر وہ لبرل بنتے ہیں، یہ ان کا د ہرامعیار ہے ، عمران خان کمپروما ئز نہیں کرے گا، ہم نے کوئی این آر او نہیں کیا ،کرپشن کرنے والا کوئی نہیں بچے گا ، سیاستدانوں کیخلاف نیب مقدمات کافیصلہ عدالتیں کریں گی، انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے ، وائٹ کالر کرائم ضرور ثابت ہوتے ہیں’گڈفیتھ کا یہ مطلب نہیں کہ ناجائز اختیارات کا استعمال کیا جائے ، ایسے لوگوں کا ضرور احتساب ہوگا، دفاع کا موقع سب کو دیا جائے گا، حکومت دفاعی پوزیشن پر نہیں ہے ، پی ٹی آئی حکومت عوامی ہے ،ہم جوابدہ ہیں ،اس لئے ہر بات کی وضاحت کرتے ہیں ،اسے سمجھو تا نہ سمجھا جائے ، لنگر خانے کھولے گئے ، فلاحی ریاست کی سوچ لے کر چل رہے ہیں، ملک میں سرمایہ کاری آرہی ہے ، پی آئی اے میں بہتری آئی ہے ،سٹیل ملز خسارے سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں ، عمران خان نے عوام کو شعور دیا، اس لئے بچے بھی ملکی معاملات پر بحث کر رہے ہیں ، نیب ترمیمی آرڈیننس پر ہر آدمی اپنی مرضی سے بات کر رہا ہے ۔ریکوری یونٹ پہلی مرتبہ قائم کیا گیا، ہم صرف نعرے نہیں لگا رہے ہیں بلکہ عملی اقدامات کر رہے ہیں ،موڈیز کی رپورٹ پڑھ لیں، یہ ہماری رپورٹ نہیں ہے ، احساس پروگرام 192 ارب تک پہنچ گیا ہے ، اس سے غریب آدمی کو ریلیف پہنچے گا ،کمزور طبقہ کو اوپر لے کر جانا ہے ، 24 ہزار ارب کے غیر ملکی قرضوں کے حوالے سے کمیشن کی رپورٹ بھی جلد قوم کے سامنے لائی جائے گی ،عمران خان نے سمجھوتا نہیں کیا ،اسی لئے یو این میں جاکر کشمیر کا بھرپور انداز میں مقدمہ لڑا، نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ حکومت نے نیب کے قانون کو بہتر کرنے کیلئے ترامیم کی ہیں، آرڈیننس سے نیب کے اختیارات میں کمی نہیں بلکہ اس کے کام کو آسان بنا دیا گیا ہے ، نیب کے اوپر زیادہ بوجھ نہیں ڈال سکتے ، ترامیم سے نیب کرپشن پر فوکس کر سکے گا۔ معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا کہ نیب قانون میں ترامیم کے حوالے سے کابینہ میں کئی بار ڈسکشن ہوئی، پوری کابینہ کے اتفاق رائے کے بعد آرڈیننس لایا گیا ہے ، مضاربہ اور ہاؤسنگ سکیموں کے کیسز نیب کے پاس ہوں گے ، شہزاد اکبر نے کہا کہ اپوزیشن بے جا تنقید کر رہی ہے ، قانون کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، قانون کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے ، آرڈیننس سے کس کو فائدہ ہو گا اور کس کو نہیں اس کا فیصلہ عدالتیں کر ینگی ۔ انہوں نے کہا کہ نیب بدعنوان عناصر کے خلاف بلاامتیاز احتساب کا عمل جاری رکھے گا، جہاں بھی کرپشن ہوئی ہے وہ لوگ نیب کی زد میں آئیں گے ، جس نے کرپشن نہیں کی اس کو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نیب آرڈیننس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت سابق صدر زرداری کی اس بات پر متفق ہے کہ نیب اور معیشت اکٹھے نہیں چل سکتے ، واضح متعصبانہ کوششیں کرنے کی بجائے حکومت نیب کو ختم کر کے اپوزیشن سے ملکرقانون سازی کرے ، ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا انسداد بدعنوانی کے قوانین کو مضبوط کریں اور اس ڈھونگ کو ختم کریں ، دوسری جانب اسلام آباد میں چودھری منظور ، مصطفی نواز کھوکھر اور نذیر ڈھوکی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا حکومت نے اپنے ساتھیوں کو این آ ر او پلس دے دیا ، عمران خان کی سیاست کا آخری یوٹرن قریب ہے ، جب سلیکٹڈ کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو انہیں یوٹرن دے دیا جاتا ہے ، وزیراعظم بتائیں کون مزاحمت کر رہا ہے ؟وہ کس طرف اشارہ کر رہے ہیں؟عمران خان کی طرف سے مزاحمت کی بات ان کے ٹوٹتے ہوئے ارادے ہیں، ملک میں مہنگائی، بے روزگاری، معیشت کی تباہی اور ناکام خارجہ پالیسی کا سونا می آگیا ،لیاقت باغ جلسے میں حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بہت کوشش کی ،ہمیں عدالتوں کا سہارا لینا پڑا ، یہی وجہ ہے کہ ہم حکومت کو فاشسٹ کہتے ہیں، اگر حکمران خود جلسے کریں تو ٹھیک ہے لیکن مخالفین کو طعنے دیتے ان کی زبان نہیں تھکتی ،پیپلزپارٹی میدان میں آئی تو ا س نے آمروں کو چلتا کیا ، مجھے یقین ہے کہ جیالوں کے حوصلے بلند ہیں،حکومت کی گھبراہٹ صاف نظر آرہی ہے ،جو لوگ خان صاحب کیساتھ ہوگئے ان کے گناہ دھل گئے ،ساتھیوں کو بچانے کیلئے نیب آرڈیننس لایا گیا تاکہ مالم جبہ یابی آرٹی کیس نہ کھولا جائے ،اپوزیشن رہنماؤں کی ضمانتیں حکومت کو اچھی نہیں لگ رہیں،میرا سوال ہے کہ نیب فوج، عدلیہ، حکومت اور حکمران اتحاد کا احتساب کیوں نہیں کرتا ؟نیب صرف اپوزیشن کی دو جماعتوں کا ہی احتساب کر سکتا ہے اور اب ان جماعتوں کے گردپھر گھیرا تنگ کیا جائے گا ، عمران خان نے پارلیمنٹ کو بند کر دیا ہے ،جب ہم کہتے تھے کہ قانون سازی کریں تو وہ پارلیمنٹ نہیں آتے تھے اور اب ایوان صدر سے آرڈیننس فیکٹری چالو کر دی گئی جہاں سے ہر روز نیا آرڈیننس آتا ہے ، بلاول بھٹو ملک کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے آگئے ہیں ،آرڈیننس کا جائزہ لے رہے ہیں مگر یہ کام پارلیمنٹ کا ہے ہم پر تو پہلے ہی کیس چل رہے ہیں، ہمیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ،اس آرڈیننس پر پارلیمانی پارٹی بیٹھے گی جس کے بعد اپوزیشن اپنا واضح موقف دے گی، نیب آرڈیننس کو عدالت میں نہیں لے جانا چاہتے مگر پارلیمنٹ میں لے جانے کا فیصلہ پارٹی کرے گی، پیپلزپارٹی کا راولپنڈی میں جلسہ بہت کامیاب رہا، پولیس نے بہت اچھی سکیورٹی فراہم کی جس پر ان کے شکرگزار ہیں، خالی دماغوں کو خالی کرسیاں ہی نظر آئیں گی،پھر بھی وہ یہی کہتے ہیں تو ان کی دماغی صحت کا علاج ہمارے نہیں عوام کے پاس ہے ، ہمارے کارکنوں پر ایف آئی آر درج کی گئی کہ انہوں نے کسی ادارے کے خلاف نعرے بازی کی ، جلسوں میں نعرے لگتے ہیں، ہمیں تو لوگ گالیاں دیتے رہے مگر ہم برداشت کرتے رہے ،انتظامیہ کسی کی سیاسی آلہ کار نہ بنے ، ایف آئی آر فوری واپس لے ، بلاول بھٹو اپریل تک پنجاب کے 8 اضلاع کا دورہ کریں گے ،بعد ازاں وہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی جائیں گے ۔ ایک سوال پر پیپلزپارٹی کے رہنما چودھری منظور نے کہا نیب آرڈیننس این آر او کی ماں ہے ۔ ایک بیان میں پیپلز پارٹی کے رہنما اورڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے کہا نیب آرڈیننس امتیازی سلوک پر مبنی ہے ، آرڈیننس کی کیا ضرورت تھی؟ جب پارلیمان موجود ہے ،حکومت قانون سازی کرے ،آرڈیننس کا اجرا پارلیمان کی بے توقیری ہے ۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے نیب ترمیمی آرڈیننس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ قانون ٹھیک نہیں اور اس میں ترمیم ہونی چاہیے تو آپ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھیں اور اس قانون میں پارلیمان کے ذریعے ترمیم کر لیں،حکومت نے جو ترمیم کی ہے ، وہ ان کے نزدیک اپنی آسانی اور اپنے بندوں کو محفوظ کرنے کے لئے کی ہے ،اگر حکومت نے یہ ترمیم نیک نیتی سے کی ہے تو پھر آرڈیننس کیوں لایا گیا، جن شقوں میں ترمیم کی گئی ،اسی طرح اور بھی چیزیں کر لینی چاہئے تھیں، اس کے پیچھے ان کی نیت درست نہیں،جب اپوزیشن اس قانون کے ذریعے مشکلات کا شکار تھی اس وقت حکومت نے یہ نہیں کہا کہ اسے ٹھیک ہونا چا ہیے ،جب ہم یہ کہہ رہے تھے کہ نیب معیشت اور گورننس کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے تو اس وقت کوئی سننے کے لئے تیار نہیں تھا،ترمیم کا طریقہ کار غلط ہے ، حکومت سمجھتی ہے کہ قانون غلط ہے تو یہی موقف دوسری جماعتوں کا بھی ہے تو اس پر بیٹھ کر اتفاق رائے کیوں نہیں پیدا کرنا چاہتی؟ آرڈیننس کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ پارٹی کرے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں